کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 35
شریعت کے خلاف فیصلہ کرنا اور موجودہ دور میں کسی جج کا کسی واقعہ میں بار بار کسی غیرشرعی قانون کی طرف رجوع کرنا اور اس کے مطابق فیصلہ میں استمرار کا پایا جانا ایک بالکل مختلف معاملہ ہے۔ اس بارے ہمارا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ یہ دونوں صورتیں گناہ کے اعتبار سے برابر نہیں ہیں ۔ پہلی صورت گناہ ہونے کے اعتبار سے کم درجے کی ہے جبکہ دوسری صورت کا گناہ اس سے بہت بڑھ کر ہے لیکن پھر بھی یہ کفر اکبر نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کسی گناہ پر اصرار کرتا ہے تو وہ گناہ کفر نہیں بن جاتا جیسا کہ ایک شرابی زندگی بھر شراب پیتا رہے اور ایک سود خور عمر بھرسود کھاتا رہے تو اس کے اس فعل کی برائی ‘ قباحت اور شناعت تو بڑھ جائے گی لیکن اس کا یہ فعل گناہ کبیرہ ہی رہے گا نہ کہ کفر اکبر بن جائے گا۔صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہنے والے ایک صحابی عبد اللہ الحمارt شراب نوشی پر دوام اختیار کرنے والوں میں سے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کئی بار حد جاری فرمائی یہاں تک ایک دفعہ تنگ آکر بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان پر لعن طعن کی کہ اتنی بار حد نافذ کرنے کے بعد بھی اس عادت کوچھوڑنے کو تیار نہیں ہے تو اللہ کے رسولe نے اس لعن طعن سے منع فرمایا اور کہا کہ میں جانتا ہوں کہ اس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے۔(40) پس نص سے ثابت ہوا کہ کسی برائی یا کبیرہ گناہ پر دوام اسے کفر اکبر نہیں بناتالہٰذا اگر ’قضیہ معینہ ‘میں ایک چیز کبیرہ گناہ ہے جیسا کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا بھی یہی کہنا ہے تو’ تشریع عام‘ میں اس گناہ کبیرہ پر استمرار کی صورت میں وہ کفر اکبر کیسے بن جائے گی؟ عقلی اعتبار سے شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا قول اس لیے قابل قبول نہیں ہے کہ ان کے قول کے مطابق ’تحکیم بغیر ما أنزل اللّٰہ ‘میں اعتقادی کفر کی چھ اقسام داخل ہیں ، جبکہ انہوں نے اعتقادی کفر کے بیان میں پانچویں اور چھٹی قسم ایسی بیان کی ہے جو عمل سے متعلق ہیں اور عملی کفر ہیں ۔انسان کا عمل ہر صورت میں اس کے عقیدے پر دلالت نہیں کرتا اور نہ ہی ہر صورت میں عمل کی عقیدے پر دلالت قطعی ہوتی ہے مثلاً ایک شخص ساری عمر حرام مال کھاتا رہا ہے ‘ اب کیا اس کا یہ عمل اس بات کی دلیل ہے کہ و ہ حرام مال کھانے کو جائز یا اچھا سمجھتا ہے۔ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے قول میں یہ بات