کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 34
اگر وہ شریعت کو اس وضعی قانون سے بہتر سمجھتا تو شریعت اسلامیہ کو زائل نہ کرتا اور اس کی جگہ وضعی قانون نافذ نہ کرتا پس حاکم کا یہ فعل اللہ کے انکار کے مترادف ہے اور جہاں تک اس کا معاملہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ ہمارے قانون میں صرف نکاح اور وراثت کے معاملات شریعت کے مطابق طے ہوں گے تو وہ کتاب کے بعض حصے پر ایمان لاتا ہے اور بعض کا انکار کرتا ہے یعنی بعض میں شریعت کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور بعض میں شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کررہا ہے ۔ اور دین کے حصے بخرے نہیں کیے جا سکتے ۔ اسی طرح شریعت کے مطابق فیصلوں میں بھی یہ تقسیم درست نہیں ہے لہٰذا یہ ایک لازمی امر ہے کہ مکمل فیصلے شریعت کے مطابق کیے جائیں اور ایسا معاملہ نہ ہو کہ بعض فیصلے تو شریعت کے مطابق ہوں اور بعض میں شریعت کو چھوڑدیا جائے۔‘‘
بعض لوگوں کو شیخ صالح الفوزان حفظہ الله کے بارے یہ غلط فہمی ہوئی کہ شاید وہ بھی وضعی قوانین کے متعلق فیصلہ کرنے والوں کی مطلق تکفیر کے قائل ہیں حالانکہ یہ درست نہیں ۔ ان کا تفصیلی موقف یہی ہے جو ہم نے بیان کر دیا ہے ۔ خالد العنبری کی کتاب پر ’اللجنۃ الدائمۃ‘ کی طرف سے جو فتویٰ آیا تھا اس میں شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کے جو تاثرات تھے ان میں شیخ نے اسی تفصیل کو’’لأنہ یزیح تحکیم الشریعۃ الإسلامیۃ وینحیھا نھائیا‘‘کے الفاظ سے اجمالاً بیان کیا ہے ۔(39)
پانچویں توجیہہ
بعض سلفی اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ اگر بفرض محال یہ مان لیا جائے کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ ’قضیہ معینہ‘ اور’تشریع عام‘ میں فرق کرتے ہوئے، مجرد معاصر مسلمان ممالک کے قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے کی وجہ سے کسی حکمران یا جج کو ملت اسلامیہ سے خارج قرار دیتے ہیں تو ان کا یہ قول عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہے لہٰذا ناقابل قبول ہے۔
تکفیر کے قائل شارحین کا کہنا یہ ہے کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے قول کے مطابق معاصر حکمران یا جج حضرات جس آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں اسے ایک مصدر اور منبع کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور وہ اپنے فیصلوں میں باربار اس آئین یا قانون کی طرف رجوع کرتے ہیں لہٰذا قرون اولیٰ میں کسی قاضی کا کسی خاص واقعہ میں