کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 33
فیصلہ کرے جو کلی طور پر غیر اللہ کا ہو اور اس میں اسلام نام کی کوئی چیز تک نہ ہو تو ایسے ’مجموعہ قوانین‘ کے مطابق فیصلہ اللہ کے ساتھ کفر کے مترادف ہو گا اور اگر کوئی ’مجموعہ قوانین‘ ایسا ہو جو انگریزی اور اسلامی قوانین کا ملغوبہ ہو ‘ جیسا کہ اکثر مسلمان ممالک کا معاملہ ہے ‘تو ایسے قوانین کے مطابق فیصلہ کرنا اگرچہ کناہ کبیرہ تو ہے لیکن دائرہ اسلام سے اخراج کا باعث نہیں ہے جب تک کہ فیصلہ کرنے والااپنے اس عمل کو ناجائز اور حرام سمجھتا ہو۔ شیخ صالح الفوزانd فرماتے ہیں :
’’سوال: ما حکم تنحیۃ الشریعۃ الإسلامیۃ واستبدالھا بقوانین وضعیۃ کالقانون الفرنسی البریطانی وغیرھا مع جعلہ قانونا ینص فیہ علی أن قضایا النکاح والمیراث بالشریعۃ الإسلامیۃ؟ الجواب: من نحی الشریعۃ الإسلامیۃ نھائیا وأحل مکانھا القانون فھذا دلیل علی أنہ یری جواز ھذا الشیء لأنہ ما نحاھا وأحل محلھا القانون إلا لأنہ یری أنھا أحسن من الشریعۃ ولو کان یری أن الشریعۃ أحسن منھا لما أزاح الشریعۃ وأحل محلھا القانون فھذا کفر باللّٰہ عز وجل۔أما من نص علی أن قضایا النکاح والمیراث فقط تکون علی حسب الشریعۃ ھذا یؤمن ببعض الکتاب ویکفر ببعض یعنی یحکم الشریعۃ فی بعض ویمنعھا فی بعض والدین لا یتجزأ تحکیم الشریعۃ لا یتجزأ فلا بد من تطبیق الشریعۃ تطبیقا کاملا ولا یطبق بعضھا ویترک بعضھا۔‘‘ (38)
’’ سوال: شریعت اسلامیہ کو معزول کرنے اور اس کی جگہ وضعی مثلاًفرانسیسی یا برطانوی قوانین وغیرہ کو لانے کا کیا شرعی حکم ہے جبکہ ان کے ساتھ یہ قانون بھی موجود ہو کہ نکاح اور وراثت وغیرہ کے معاملات شریعت اسلامیہ کے مطابق طے پائیں گے؟جواب: جس نے شریعت اسلامیہ کو کلی طور پر معزول کر دیا اور اس کی جگہ وضعی قانون کو نافذ کر دیا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس شے کو جائز سمجھتا ہے کیونکہ اس نے شریعت کو معزول کر دیا ہے اور اس کی جگہ وضعی قانون کو نافذ کر دیا ہے تو یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ اس وضعی قانون کو شریعت سے بہتر سمجھتا ہے اور