کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 32
شریعت کے مطابق فیصلے کیے جائیں اور اس کی پابندی کی جائے اور شریعت اسلامیہ کے جتنے بھی وضعی قوانین ہیں کہ جن کے بارے اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی‘ ان کو پھینک دیا جائے۔ پس جس نے ان وضعی قوانین کے مطابق فیصلے کیے یا ان کے مطابق فیصلے کروائے اور اپنے اس فعل کے صحیح اور جائز ہونے کا عقیدہ رکھتا ہو تو وہ ایسا کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہے اور جو شخص ان قوانین وضعیہ کے مطابق فیصلہ کرے یا کروائے لیکن ان کے صحیح یا جائز ہونے کا عقیدہ نہ رکھتا ہو تو اس کا کفر عملی کفر ہے جو دین اسلام سے خارج نہیں کرتا۔‘‘ پاکستان میں’اصلی اہل سنت‘کی سلفی ویب سائیٹ اسی قول کو پیش کر رہی ہے۔اس سائیٹ کا ایڈریس" http://www.asliahlesunnet.com" ہے۔ تیسری توجیہہ بعض سلفی علماء نے شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کی بیان کردہ آخری دوقسموں کو بھی پہلی چار اقسام کا بیان قرار دیا ہے۔ شیخ عبد الرحمن بن معلا اللویحق کا کہنا یہ ہے کہ پہلی چار قسموں میں شیخ نے ’أن یجحد‘یا ’أن یعتقد‘کے الفاظ سے فاعل کو مخاطب کیا ہے جبکہ آخری دو قسموں میں شیخ نے فاعل کی بجائے فعل کو موضوع بحث بنایا ہے لہٰذا آخری دو قسمیں اپنے فاعل کے اعتبار سے پہلی چار قسموں میں شامل ہوں گی۔ (37) دوسرے الفاظ میں شیخ کی بیان کردہ پہلی چار قسموں میں غیر معین اشخاص کی تکفیر کی گئی ہے جبکہ آخری دو قسموں میں کفر کو بیان کیا گیاہے لہٰذا پہلی چار قسمیں تکفیر سے متعلق ہیں اور آخری دو بیان ِ کفر ہیں ۔ چوتھی توجیہہ بعض سلفی علماء ‘شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کی بیان کردہ آخری دو اقسام کی بنیاد پر تکفیر کے قائل ہیں (38) لیکن وہ اس میں کچھ مزید تفصیل بیان کرتے ہیں ۔ ان سلفی علماء کے نزدیک اگر کوئی حکمران یا جج کسی ایسے’ مجموعہ قوانین ‘کے مطابق