کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 3
حل کرنا چاہتا ہے تو کوئی مذہب کو ریاست سے جدا کرنے میں خیر وعافیت اور ترقی کی راہ تلاش کر رہا ہے۔ ان میں سے کوئی دین کو سیاست و پارلیمنٹ سے جدا کرنے کا راستہ ہموار کر رہاہے اور کوئی اسلام کے حرکی تصورات کو خانقاہی جمود میں تبدیل کرنے کا خواہاں ہے۔ ان اداروں اور ان کے شائع کردہ تحقیقی کام کا بنظر غائر مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بلاشبہ یہ سب رد عمل کی نفسیات کا شکار ہیں اوریہ ردعمل پاکستان کی مذہبی جماعتوں ، اسلامی تحریکوں ، مدارس اور علماء سے پیدا ہوا ہے۔ اس رد عمل کی نفسیات کے محرکات اور اسباب کی بحث ہم کسی اور وقت کے لیے چھوڑے دیتے ہیں ۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ تکفیر اور انتہا پسندانہ نظریات پر مشتمل مجلہ ’نوائے افغان‘ ہو یا’حطین‘، یہ رسائل بھی رد عمل کی نفسیات میں مبتلا ہیں اور یہ رد عمل امریکہ کی ریاستی دہشت گردی ، ڈرون حملوں ، تیل ومعدنی ذخائر کے حصول اور عالمی چودہراہٹ کو برقرار رکھنے کے لیے مسلمان عوام کے قتل عام، پاکستانی حکومت ، سکیورٹی فورسز اور ایجنسیوں کی طرف سے ریاستی دہشت گردی میں امریکہ سے تعاون، لال مسجد کے سانحہ، قبائلی رہنماؤں کو امریکہ کے حوالے کرنے ،جنوبی وزیرستان میں افواج پاکستان کے آپریشن اور شمالی و جنوبی وزیرستان میں ڈرون حملوں کے جواب میں پاکستانی حکومت کی طرف سے خاموشی کی وجہ سے ہے۔ یہ کرپٹ حکمرانوں کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف نفرت اور بغض کا اظہار ہے کہ جس میں مذہب اور خدا کے نام پر بے جا سختی ، تشدد، غلو،عدم برداشت، اظہار بغض، عوامی خود کش حملوں اور ان جیسے بیسیوں رویوں کو جہاد و دین کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ہماری نظر میں یہ درحقیقت دوفریقین کی جنگ ہے کہ جس کی ابتدا امریکہ اور پاکستانی حکومت نے کی ہے اور اس ظلم کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان پیدا ہوئی اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار ہیں ۔اس جنگ میں فریقین کی طرف سے تکلفاً مذہب اور دین کو گھسانے کی کوشش کی گئی ہے حالانکہ یہ حقوق و فرائض(Rights and Responsibilities)کی جنگ ہے کہ جس میں ظالم اور مظلوم کا تعین کیا جا سکتا ہے اور کرنا بھی چاہیے۔ ایک طرف پاکستانی حکومت نے طالبان کو دہشت گرد اور ریاست کا باغی قرار دیتے ہوئے اپنے اقدامات کو جہاد کا نام دیا تو دوسری طرف طالبان پاکستان نے اپنے پر کیے جانے والے ظلم کے بدلہ کو غلبہ دین کی