کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 26
علاوہ فیصلہ کرنے والا حاکم‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم [قانون ]کے حق ہونے کا ہی انکاری ہو۔۔۔ دوسری صورت یہ ہے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے والا حاکم‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم[قانون] کو تو حق مانتا ہو لیکن اس کا اعتقاد یہ ہو ان کے علاوہ[مثلا ً انگریز وغیرہ] کا حکم[ قانون ] اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم [ قانون]سے زیادہ بہتر‘ جامع اور مکمل ہے۔۔۔تیسری قسم یہ ہے کہ[ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے والا حاکم] یہ اعتقاد تونہ رکھے کہ غیراللہ کا قانون ‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون سے بہتر ہے لیکن ان دونوں کو برابر حیثیت دے تو اس صورت میں بھی اس حاکم کا کفر ایسا ہو گا جو اسے ملت اسلامیہ سے خارج کر دے گا۔۔۔چوتھی صورت یہ ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے والا حاکم نہ تو غیر اللہ کے قانون کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون سے بہتر سمجھے اور نہ ہی اس کے برابر سمجھتا ہو لیکن اس کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف قانون سے فیصلہ کرنا بھی جائز ہے ۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سلفی علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان چار قسم کے اعتقادی کفر کے ساتھ غیر اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنے والا حاکم یا جج دائرہ اسلام سے خارج ہے لیکن اس صورت میں بھی معین تکفیر اس وقت تک جائز نہ ہو گی جب تک کہ رسوخ فی العلم رکھنے والے علماء کی ایک جماعت شروط اور موانع کا لحاظ رکھتے ہوئے کسی معین حکمران یا جج کی تکفیر نہ کر دے۔ہاں ! ان چار صورتوں کو اصولی انداز میں ہر کوئی بیان کر سکتا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔شارح عقیدہ طحاویہ شیخ ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’وھنا أمر یجب أن یتفطن لہ وھو : أن الحکم بغیر ما أنزل اللّٰہ قد یکون کفراینقل عن الملۃ وقد یکون معصیۃ کبیرۃ أو صغیرۃ ویکون کفرا: إمامجازیا وإما کفرا أصغر علی القولین المذکورین۔وذلک بحسب حال الحاکم: فإنہ إن اعتقد أن الحکم بما أنزل اللّٰہ غیر واجب ‘ وأنہ مخیر فیہ‘ أو استھان بہ مع تیقنہ أنہ حکم(اللّٰہ ) فھذا کفر أکبر۔وإن اعتقد وجوب الحکم بما أنزل اللّٰہ وعلمہ فی ھذہ الواقعۃ وعدل عنہ مع اعترافہ بأنہ مستحق للعقوبۃ‘ فھذا عاص