کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 23
شکار نہ ہو جائے؟جواب: ہیئہ کبار العلماء کی طرف سے ان اصحاب اور ان کے اعمال و افعال کی مذمت میں کئی ایک قرار دادیں پاس ہو چکی ہیں ۔‘‘ شیخ صالح اللحیدان حفظہ اللہ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ اور ان کی تنظیم کے بارے فرماتے ہیں : ’’ما موقف المسلم من تنظیم القاعدۃ ومنھجھا الذی یتزعمہ أسامۃ بن لادن۔الجواب: لا شک أن ھذا التنظیم لا خیر فیہ ولا ھو فی سبیل صلاح وفلاح۔۔۔ثم ھذا التنظیم ھل نظم لقتال الکفار وإخراجھم من بلاد الإسلام والتوجہ إلی البلاد التی ترزح تحت دول غیر إسلامیۃ لنشر الدین فیھا أو ھذہ القاعدۃ تحت الشعوب فی أوطانھا علی الخروج علی سلطانھا لیحصل بذلک سفک دماء وإھدار حقوق وتدمیر منشآت وإشاعۃ خوف۔‘‘ (25) ’’ ایک مسلمان کی القاعدہ نامی تنظیم اور اس کے منہج کے بارے کیا رائے ہونی چاہیے جس کی سربراہی جناب اسامہ بن لادن فرما رہے ہیں ؟جواب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس تنظیم میں کوئی خیر نہیں ہے اور نہ ہی یہ اصلاح و فلاح کے رستے پر ہے۔۔۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ تنظیم کفار سے قتال اور ان کافروں کو مسلمان ممالک سے نکالنے یا کافر حکومتوں کے بوجھ تلے دبے اسلامی ممالک میں دین اسلام کی نشر واشاعت کے لیے منظم کی گئی ہے یا اس تنظیم کا اصل کام مسلمان ممالک میں مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج ہے تاکہ اس سے دونوں طرف سے مسلمانوں کا خون بہے‘حقوق تلف ہوں ‘ تنصیبات تباہ ہوں اور مسلمان معاشروں میں خوف و ہراس پھیل جائے۔‘‘ ان فتاویٰ کو دیکھ کرمحسوس ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کی مسلمان حکمرانوں کی تکفیراور ان کے خلاف خروج کی تحریک کو سلفی اہل علم کے طبقے میں ذرہ برابر بھی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ بعض مجاہدین کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے مخالف تھے یہاں تک انہیں ایمن الظواہری کی صحبت نصیب ہوئی اور ایمن الظواہری نے ان میں اس تکفیری فکر کی بنیاد ڈالی۔ اس کی گواہی مجاہد عظیم شیخ