کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 22
پوچھنا یہ ہے کہ کیا ہمارے لیے یہ جائز ہے کہ ہم ان کو خوارج میں شمار کریں خاص طور پر اس وجہ سے کہ وہ ہمارے ممالک اور اس کے علاوہ مسلمان ممالک میں خود کش دھماکوں کی تائید کرتے ہیں ؟ جواب: جس کا بھی یہ فکر ہو اور جو بھی اس فکر کا داعی ہو اور اس کی لوگوں کو ترغیب دے تو خوارج میں سے ہے ‘ چاہے اس کا نام یا اس کا مقام کچھ بھی ہو۔ قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ جو شخص بھی اس فکر کا داعی ہو یعنی مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج‘ ان کو کافر قرار دینے اور مسلمانوں کے خون کو مباح سمجھتا ہو تو وہ خارجی ہے۔‘‘
شیخ عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کے بارے فرماتے ہیں :
’’السوال : ھل یجوز أن یقال أن ابن لادن ضال وھل یجوز للمسلمین الذین لیس عندھم علم کاف أن یستمعوا إلی خطابتہ فی الأنترنت؟ الجواب: یا إخوانی ھؤلاء ھم سبب الشر والفساد وھم لا شک ضالون فی طریقتھم۔‘‘ (23)
’’سوال: کیا یہ جائز ہے کہ یہ کہاجائے کہ اسامہ بن لادن ایک گمراہ آدمی ہے اور کیا جاہل مسلمانوں کے لیے یہ درست ہے کہ وہ انٹرنیٹ وغیرہ پر اس کے خطابات سنیں ؟ جواب: میرے بھائیو! یہ لوگ شر و فساد کی جڑ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ گمراہ ہیں ۔‘‘
ہیئہ کبار العلماء نے بھی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے قائلین کو متنبہ اورخبردار کیا ہے۔ شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’السوال : لماذا لا تصدر فتاوی من کبار العلماء تحذر من رؤوس الخوارج مثل بن لادن والفقیہ والظواھری حتی لا یغتر بھم کثیر من الناس۔ الجواب : ظھر من ھیئۃ کبار العلماء عدۃ قرارات بالتندید من ھذہ الأعمال و أصحابھا ۔‘‘ (24)
’’سوال: کبار علماء کی طرف سے ایسے فتاویٰ جاری کیوں نہیں ہوتے جن میں خارجیوں کے سرغنہ اسامہ بن لادن‘ سعد الفقیہ اور ایمن الظواہری وغیرہ کے بارے لوگوں کی رہنمائی کی جائے تا کہ ان کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت دھوکے کا