کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 2
انکار ِ خدا اور انکارِ مذہب کی طرف نہ صرف مائل بلکہ اس کے حق میں دلائل کا انبار لیے پھرتا ہے۔ اسلامی معاشروں میں جدیدیت اور ما بعدجدیدیت کے بیسیوں درجات اور ورژن پائے جاتے ہیں کہ جن کاابتدائی مرحلہ مولوی اور مولویت کی مخالفت اور انتہائی مرحلہ خدا اور مذہب کی ضرورت سے انکار پر مشتمل ہوتا ہے۔
جدیدیت کی عالمی تحریک کے ساتھ ساتھ امریکہ اور اسرائیل نے اپنے مالی مفادات کے تحفظ اور ان میں اضافہ کے لیے عالم اسلام کے کئی ایک خطوں افغانستان، عراق اورفلسطین وغیرہ کو ریاستی دہشت گردی(State Terrorism)کا نشانہ بنایا۔ اس ریاستی دہشت گردی کا کئی ایک سطحوں پر مسلم معاشروں میں شدید رد عمل پیدا ہوا۔ امریکی اور اسرائیلی مظالم کے خلاف کئی ایک جہادی اور انقلابی تحریکیں وجود میں آئیں ۔ ان میں سے بعض تحریکوں میں رفتہ رفتہ ردعمل کی نفسیات، غصہ، انتقام اور مزاج کی سختی جیسے رویوں نے انتہا پسندی کے عنصر کو جنم دیا۔ جہادی تحریکوں کے ایک حصے نے اُن مسلم حکومتوں کے خلاف بھی اعلان جنگ کر دیا جو اپنی کرپشن ، بزدلی یا کسی عام مصلحت کے پیش نظر ان کفارسے جنگی تعاون کر رہے تھے۔ یہیں سے مسلم معاشروں میں فساد اور بگاڑ کی ایسی لہر چل پڑی ہے کہ جس کا تاحال کوئی کنارہ نظر نہیں آ رہا ہے۔ ظالم اور کرپٹ حکمرانوں ، ان کی محافظ سکیورٹی فورسز اور ان کے حواریین کی تکفیر اور ان کے خلاف خود کش حملوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہو گیا اور پُرامن عوام الناس اور اہل علم کی ایک مختصر جماعت بھی تشدد کی اس تحریک کاشکار ہو گئی۔
اس سارے پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے اہل علم کی ایک جماعت کو یہ توفیق بخشی کہ وہ مسلم معاشروں میں پائی جانے والی اِن دوانتہاؤں کے مابین قدرے معتدل اور متوازن نقطہ نظر پیش کرے تا کہ امت مسلمہ جدیدیت اور خوارجیت کے مابین امت وسط کی صفت سے صحیح معنوں میں متصف ہو سکے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا ترجمان مجلہ ’اجتہاد‘ ہو یا پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر کا ماہنامہ ’تجزیات‘، مولانا وحید الدین خان صاحب کا ماہنامہ ’تذکیر‘ ہو یا جاوید احمد غامدی صاحب کا ماہنامہ ’اشراق‘۔ یہ مجلات جدیدیت کی طرف مائل ہیں بلکہ ان میں سے بعض تو اس کے دعویدار بھی ہیں ۔ ان میں سے کوئی جدید تعلیم یافتہ طبقے کے ہاتھ میں اجتہاد کی باگ دوڑ تھما کر پاکستا ن کے مسائل