کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 18
ان کے ساتھ ایک ہی معاملہ درست ہے اور وہ جہاد اور قتال فی سبیل اللہ ہے۔‘‘
ایک اور جگہ فرماتے ہیں :
’’لیعلم الجمیع أن علیھم إذا أرادوا منا أن نتراجع عن مبادئنا التی من أجلھا خلقنا وبھا أمرنا ومن أجلھا دماء نا سفکنا فیلخرجوا محمدا من قبرہ لیقول لنا: لا تخرجوا المشرکین من جزیرۃ العرب لیخرجوہ لیقول: لا تجاھدوا المشرکین من جزیرۃ العرب لیخرجوہ لیقول: إنکم مخطئون متطرفون إرھابیون لا بدلکم أن تتراجعوا وتتوبوا‘ عندھا فقط سنسمع ونطیع لہ۔‘‘ (17)
’’ ان سب کو یہ معلوم ہو جانا چاہیے کہ اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے ان اصولوں اور مبادیات سے رجوع کریں جن کے لیے ہمیں پیدا کیا گیا ہے اور جن کا ہمیں پابند بنایا گیاہے اور جن کی خاطر ہم نے اپنا خون بہایا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر سے نکالیں تاکہ وہ ہمیں یہ کہیں : تم مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نہ نکالو۔ [ اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر سے نکالیں ]تاکہ وہ ہمیں یہ کہیں : تم جزیرہ عرب کے مشرکوں سے جہاد نہ کرو تاکہ تم انہیں یہاں سے نکال دو۔ [اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر سے نکالیں ] تا کہ وہ ہمیں یہ کہیں : تم خطا کار ‘ افراط و تفریط کا شکار اور دہشت گرد ہو۔ تمہارے لیے یہ لازم ہے کہ تم اپنے موقف سے رجوع کرو اور اللہ کی جناب میں توبہ کرو۔ تو تب ہم بات کو سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔‘‘
بلاشبہ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ اور جہادی تحریکوں کے رہنماؤں کی امریکہ اور یورپین ممالک کے ظلم و ستم کے خلاف قربانیاں ناقابل فراموش ہیں اور ظالم مغربی ریاستوں کے خلاف ان کے اعمال و افعال کو ہمیشہ جمہور علماء کی تائید حاصل رہی ہے لیکن جب سے ان حضرات نے اپنی توپوں کا رخ امریکہ اور یورپ سے موڑ کر مسلمان حکمرانوں کی طرف بالعموم اور سعودی شاہی خاندان کی طرف بالخصوص کیا ہے‘ اس وقت سے یہ علماء کے ہاں ایک متنازع شخصیت بن گئے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے اس عمل کو تقریباً تمام سلفی علماء ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف اس جہاد کو فساد قرار دیتے ہیں ۔