کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 17
ایسے تحریکی عناصر یا علماء کو قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کر دیایا ملک بدر کر دیایا جبر و اکراہ کے ساتھ یک طرفہ شرائط منواتے ہوئے اپنی سابقہ حیثیت پر برقرار رکھا۔ اس ظلم وستم کے نتیجے میں خاندان ِآل سعود کی تکفیر کی تحریک شروع ہو گئی۔شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’میرا اگلا پیغام اہل حل و عقد اور حق گو علماء کے نام ہے۔۔۔یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مجاہدین نے ابھی تک مکہ و مدینہ کی سر زمین پر قائم حکومت کے خلاف قتال شروع نہیں کیا۔اگر اس قتال کا آغاز ہوا تو اس کا سب سے پہلا نشانہ اس علاقے کے حکام اور کفر کے امام(یعنی آل سعود) بنیں گے۔فی الحال ہم صرف صلیبی اتحاد کے خلاف جنگ کر رہے ہیں ۔‘‘(14)
شیخ ماہر بن ظافرالقحطانی فرماتے ہیں :
’’أفتی بن لادن شیخ المفتین ألم تروا أنھم حکموا غیر شرع أحکم الحاکمین فکانوا بہ من الکافرین۔‘‘ (15)
’’مفتیانِ کرام کے شیخ اُسامہ بن لادن نے یہ کہتے ہوئے فتوی دیاہے: کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ سعودی حکمرانوں نے احکم الحاکمین کی شریعت کے خلاف فیصلے کیے ہیں ، پس اس وجہ سے وہ کافر ہیں ۔ ‘‘
سعودی حکمرانوں کے ظلم و ستم کے خلاف یہ ردعمل اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ بعض تحریکی عناصر اب آل سعود کی حکومت کے ساتھ کسی قسم کے معاہدے ‘ بحث مباحثے یا مکالمے تک کے قائل نہیں ہیں ۔ ڈاکٹر حمدبن ابراہیم عثمان فرماتے ہیں :
’’ھذا التصور لھؤلاء المرتدین الذین أخذوا مقعد الحاکم الشرعی فی بلاد المسلمین یجعل الحوار معھم مستحیلا أصلا ولا حوار مع المرتدین شرعا وسیاسۃ إلا بالسیف والقتال فی سبیل اللّٰہ ۔‘‘ (16)
’’ یہ ان [سعودی]مرتدین کا نقطہ نظر ہے جنہوں نے مسلمان ممالک میں شرعی امام کے منصب پر قبضہ کر لیا ہے اور ایسے مرتدین کے ساتھ ڈائیلاگ بالکل بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ مرتدین کے ساتھ نہ تو شرعاً ڈائیلاگ درست ہے اور نہ ہی سیاستہً بلکہ