کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 16
یجعلونھا عذرا أو إباحۃ للقوانین الوضعیۃ الوثنیۃ الموضوعۃ التی ضربت علی بلاد المسلمین۔‘‘ (12) ’’ اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ان آثار وغیرہ کی بنیاد پر ہمارے زمانے کے بعض نام نہاد اہل علم اور دین کے معاملے میں جرات کا اظہار کرنے والے کھیل تماشہ کرتے ہیں اور وہ ان آثارکو بنیاد بناتے ہوئے ان شرکیہ وضعی قوانین کو قابل عذر یا مباح قرار دیتے ہیں جو مسلمان ممالک میں نافذ کیے گئے ہیں ۔‘‘ شیخ کی درج بالا عبارت اپنے موقف میں انتہائی صریح ہے ۔اسی طرح بلاشبہ سلفی علماء کا اس بات پر اتفا ق ہے کہ خلاف ِاسلام وضعی قوانین کا نفاذ یا ان کے مطابق فیصلے کرنے کو مباح یا قابل عذر سمجھنا‘گمراہی تو کجاصریحاًکفر وشرک ہے۔شیخ احمدشاکر رحمہ اللہ اسی فعل کو ایک دوسری جگہ کفر بواح قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’إن الأمر فی ھذہ القوانین الوضعیۃ واضح وضوح الشمس ھی کفر بواح لا خفاء فیہ۔‘‘ (13) ’’ان وضعی قوانین کا معاملہ روز روشن کی طرح واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ایسا کفر بواح ہے کہ جس میں کوئی شک نہیں ہے۔‘‘ وضعی قوانین کے کفریہ ہونے میں بھی کوئی شک نہیں ہے اور جو ان کفریہ قوانین کے مطابق فیصلوں کو جائز ‘ حلال یا قابل عذر سمجھے تو اس کے اس عمل کے کفر بواح ہونے میں بھی کوئی شک نہیں ہے لیکن یہ واضح رہے کہ شیخ نے اس فعل کے فاعلین کو کافر قرار نہیں دیا ہے بلکہ شیخ کے بیانات میں اصل زور اس فعل کے کفریہ اور کفر بواح ہونے پر ہے۔ سعودی عرب میں تکفیر کی تحریک سعودی حکمران خاندان آل سعود کی اسلام مخالف خارجہ پالیسیوں ‘ عراق کے خلاف امریکی حکومت کو لاجسٹک سپورٹ‘ ہوائی اڈوں کی فراہمی اور امریکہ کے ساتھ حد سے بڑھے ہوئے تعلقات کے تناظر میں بعض اہل علم اور دینی طبقات کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار ہوا۔ سعودی حکمرانوں نے اس رد عمل کے نتیجے میں اپنی اصلاح کی بجائے