کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 15
بیعت نہ کرے تو اس مسلمان کی بھی وہ تکفیر کرتے ہیں ۔ اسی طرح اگر کوئی ان کی جماعت میں شامل ہونے کے بعد نکل جائے تو وہ بھی ان کے نزدیک مرتد اور واجب القتل ہے۔ اپنے ہجرت کے اصول کے تحت انہوں نے تمام اسلامی معاشروں کو دور جاہلیت کے معاشرے قرار دیا اور ان سے قطع تعلقی کا حکم جاری کیا ۔ اس جماعت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ موجودہ اسلامی معاشروں میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام نہیں ہے کیونکہ یہ جاہلی معاشرے ہیں اور جاہلی معاشرے کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی دعوت دی لہٰذا ان مسلمان معاشروں کو بھی مکہ کے جاہلی معاشرے پر قیاس کرتے ہوئے صرف ایمان کی دعوت دینی چاہیے۔ اس جماعت کے بعض اکابرین کو پھانسی چڑھا دیا گیا ‘ بعض نے اپنے افکار سے رجوع کر لیا اور بعض مختلف علاقوں اور بلاد اسلامیہ میں منتشر ہو کر اپنا یہ فکر عام کرنے میں مصروف عمل ہیں ۔(9)
مصر میں تکفیر کی اس تحریک کا زوال تیسرے مرحلے میں الاخوان کے مرشد عام شیخ حسن الھضیبی رحمہ اللہ سے شروع ہوا ۔ انہوں نے’دعاۃ لا قضاۃ‘کے نام سے کتاب لکھی اور اس میں اخوانیوں کو مسلمان معاشروں اور عمومی تکفیر سے منع کیا۔ انہوں نے اپنی تحریک کے اراکین میں اس بات کو اجاگر کیا کہ ہم داعی ہیں نہ کہ قاضی۔ شیخ نے یہ واضح کیا کہ اخوانیوں کا اصل کام لوگوں کی اصلاح ہے نہ کہ ان پر فتوے لگانا اور ان کے بارے کفر کے فیصلے جاری کرنا۔(10) شیخ قرضاوی حفظہ اللہ نے اپنی کتاب’ظاھرۃ الغلو فی التکفیر‘میں اس کتاب کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ اس کتاب نے اخوانیوں کو ان کے صحیح منہج اور کام کا احساس دلایا۔(11)
مصر کے معروف سلفی عالم دین شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ کے بارے یہ تاثر عام ہے کہ وہ حکمرانوں کی تکفیر کے قائل تھے۔ ہمارے علم کی حد تک ان کی کوئی بھی ایسی تحریر نہیں ہے جس میں انہوں نے توحید حاکمیت کی بنیاد پر مصری یا عثمانی حکمرانوں کی تکفیر کی ہو۔ ہاں ، ان کی بعض ایسی تحریریں ضرور موجود ہیں جس میں انہوں نے وضعی قوانین کے مطابق فیصلے کرنے کو جائز قرار دینے والوں کو گمراہ قرار دیا ہے ۔شیخ ایک جگہ فرماتے ہیں :
’’وھذہ الآثار عن ابن عباس وغیرہ ممایلعب بہ المضللون فی عصرنا ھذا من المنتسبین للعلم‘ ومن غیرھم من الجراء علی الدین