کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 14
قطب رحمہ اللہ کی تحریروں کی روشنی میں بیسویں صدی عیسوی کی سترکی دہائی میں ہوا۔(7) مصر میں تکفیر کا دوسرا مرحلہ ’جماعت المسلمین‘ سے شروع ہواجسے’جماعۃ التکفیر والھجرۃ‘کا نام دیا گیا۔ اس جماعت کی ابتداء حسن البناء رحمہ اللہ کی قائم کردہ جماعت’الإخوان المسلمون‘کے ان اراکین سے ہوئی جنہیں حکومت ِمصر کی طرف سے پابند سلاسل کیا گیااور ان پر معاصر حکام کی جانب سے شدید ظلم و ستم ہوا۔۱۹۶۷ء میں جیل میں قید اخوانیوں کے لیے جمہوریہ مصر کے صدر جمال عبدالناصر کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ اخوانی کارکنان صدرکی تائید و حمایت کریں ۔ اکثر اخوانی اراکین نے اپنے آپ کو مجبور اور حالت اکراہ میں سمجھتے ہوئے صدر کی تائید کر دی جبکہ نوجوانوں کی ایک جماعت نے اس تائید سے انکار کر دیا اور صدر اور اس کے حواریوں حتی کہ ان اخوانیوں کو بھی مرتد قرار دیا جو صدر کی تائید کر چکے تھے۔نوجوانوں کی اس جماعت نے یہ بھی کہا کہ جو ان مرتدین کو مرتد نہ کہے وہ بھی مرتد ہو جائے گا۔ ان نوجوانوں کے امام اس وقت انجینئر علی اسماعیل تھے۔ علی اسماعیل نے بعد میں اپنے افکار اور نظریات سے توبہ کر لی ۔ ان کے بعد شکری مصطفی نے ان نوجونواں کی قیادت سنبھال لی اور تنظیم کو بیعت کی بنیادوں پر منظم کیا۔ شکری مصطفی کے دور میں اس جماعت کے افکار و نظریات میں تشدد اور غلو میں اضافہ ہوا۔ جو بھی جماعت سے علیحدہ ہوتا تو اس کو وہ ایک طرف تو جسمانی سزا دینا اپنا حق سمجھتے تھے اور دوسری طرف اس کی تکفیر بھی کرتے تھے۔۳۰مارچ ۱۹۷۸ء کوحکومت مصر کی طرف سے شکری مصطفی اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ شکری مصطفی کے بعد اس جماعت کی قیادت ماہر عبد اللہ زناتی نے سنبھال لی۔ (8) اس جماعت کے بنیادی عقائد میں تکفیر اور ہجرت شامل ہے۔ تکفیر کے اصول کے تحت یہ ان حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں جو اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے ۔ یہ حکمرانوں کے علاوہ ان مسلمان معاشروں کی بھی تکفیر کرتے ہیں جو اپنے حکمرانوں کے فیصلوں پر راضی ہوں یا انہیں ووٹ دیں یا کسی طرح سے بھی ان کے ساتھ تعاون کریں ۔ یہ ان علماء کی بھی تکفیر کرتے ہیں جو شریعت کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے مسلمان حکمرانوں کی تکفیر نہیں کرتے۔ یہ جماعت تمام مسلمانوں کے لیے اپنے امام سے بیعت کو واجب قرار دیتی ہے۔ جس مسلمان تک ان کے امام کی دعوت پہنچ جائے اور وہ اس کی