کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 13
’الھائیۃ فی بیان عقیدۃ سید قطب البدعیۃ‘کے نام سے مشہور ہے۔
لیکن ہم یہاں یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ کوئی بھی شے اس دنیا میں شر محض نہیں ہے۔ سید قطب رحمہ اللہ میں عقیدے کے بگاڑ کے باوجود بہت سی خوبیاں تھیں اور دین اسلام کے لیے ان کی قربانیاں ایک تسلیم شدہ امر ہے۔ سید قطب رحمہ اللہ پر مستقل کلام کے دوران ہم ان خوبیوں پر بھی روشنی ڈالیں گے لیکن اس وقت ہمارے زیر بحث مسئلہ ’عقیدہ‘ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ’ عقیدہ ‘کے باب میں سید قطب رحمہ اللہ کوئی ایسی شخصیت نہیں ہیں کہ ان کی طرف رجوع کیا جائے۔ وہ ایک داعی‘ مبلغ‘مصلح اور ادیب تھے اور اس اعتبار سے ان کا مقام مسلّم اور قابل تعریف ہے لیکن ان کو عالم دین کے مقام پر فائز کرتے ہوئے عقیدہ و منہج میں ان کی پیروی کرنا یانوجوانوں کو اس کی دعوت دینا درست طرز عمل نہیں ہے اور اسی امر کا رسوخ فی العلم رکھنے والے سلفی علماء نے شدت سے رد کیا ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض جذباتی سلفی حضرات‘سلفی علماء کے اس قسم کے رد کو کسی شخص کو رگیدنے یا اس کی شخصیت کو مسخ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں حالانکہ علماء کا مقصد کسی شخص کی ذات کو گندا کرنا نہیں ہوتا بلکہ احقاق حق ہوتا ہے۔کسی بھی داعی ‘ مصلح یا خادم دین کے بارے انہیں عقیدہ یامنہج کی کسی خرابی کا علم ہوتا ہے تو یہ حضرات اس داعی یا مصلح کی پوری شخصیت ہی کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ انبیاء و رسل کے علاوہ اس عالم بشری میں کوئی بھی معصوم نہیں ہے اورہر کوئی خطا کا پتلا ہے لہٰذا کسی کی فکری خطا یا عقیدے کے بگاڑ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ اس کی من جملہ دینی خدمات یا اوصاف حسنہ ہی کا رد کر دیں ۔ قرآن مجید تو بعض یہود تک کے اوصاف حسنہ پر ان کی تعریف کرتا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَمِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّہٖٓ اِلَیْک﴾(5)
’’ اور اہل کتاب میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر آپ انہیں ڈھیروں مال پر امین بنا دیں تو وہ اسے آپ کو واپس کر دیں گے۔‘‘
مصر میں بھی اگرچہ قانون سازی کی تاریخ ڈیڑھ سو سال پرانی ہے (6) لیکن مصر ی حکمرانوں کے ظلم وستم کے خلاف ردعمل کی صورت میں تکفیر کی تحریک کا باقاعدہ آغاز سید