کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 10
باب اول:
توحید حاکمیت اور تکفیر
اہل علم کے اقوال کی روشنی میں
۳ مارچ ۱۹۲۴ء کو خلافت عثمانیہ کے سقوط کے ساتھ ہی امت مسلمہ میں سیاسی اجتماعیت کے حوالے سے ایک خلا پیدا ہو گیا۔ اس خلاء کو پُر کرنے کے لیے عالم اسلام کے مختلف علاقوں میں احیائی اور انقلابی تحریکوں نے جنم لیا۔ دین اسلام کے اجتماعی‘ فکری‘ سیاسی‘ قانونی‘ آئینی‘ دستوری‘معاشرتی ‘ انتظامی اور معاشی پہلوؤں سے متعلق بہت کچھ لکھا ‘ پڑھا اور سناگیا ۔
بعض مسلم ممالک میں نفاذ شریعت‘ نظام خلافت کے قیام یا اقامت دین کے لیے جدوجہد کرنے والی تحریکوں پر معاصر حکمرانوں کی طرف سے شدید قسم کا ظلم وستم ہوا تو فطری ردعمل کے نتیجے میں اسلامی تحریکوں کے کارکنان کی ایک معتد بہ جماعت میں ان ظالم حکمرانوں کے خلاف نفرت اور عداوت کا جذبہ اس قدر بڑھ گیا کہ اس کا اظہار ان کی تکفیر کی صورت میں ہونے لگا۔ حالات پر گہری نظر رکھنے والے حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی حکمرانوں کی تکفیر کی تحریک چلی ہے وہ ہمیشہ احیائی تحریکوں پر ظلم کے ردعمل میں پیدا ہوئی ہے۔ اگر اصولی اور نظری بات کی جائے توخلافت عثمانیہ اور آج کی مسلمان حکومتوں میں کوئی بھی جوہری فرق نہیں ہے۔ خلافت عثمانیہ میں سوائے مجلہ احکام عدلیہ کے‘ جو دیوانی قانون کے طور پر رائج تھا اور اس کی بھی پابندی عدالتوں کے لیے لازم نہ تھی‘ بقیہ تمام قوانین فرانسیسی ‘ اطالوی اور برطانوی تھے(1) بلکہ سلطنت عثمانیہ کے اساسی قانون میں یہ بات بھی موجود تھی کہ سود شرعاً حرام ہے اور قانوناً جائز ہے۔علاوہ ازیں سلطنت کے قانون فوجداری میں یورپین قوانین کی تقلید میں حدود کو ساقط کر دیا گیا لیکن اس کے باوجود اس وقت کے علماء میں سے کسی مکتب فکر کے کسی بھی عالم دین کو بھی ہم نہیں دیکھتے کہ وہ خلافت عثمانیہ کے حکمرانوں یا دوسرے الفاظ میں اس وقت