کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 1
کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج مصنف: ڈاکٹر حافظ محمد زبیر پبلیشر: مکتبہ رحمۃ للعالمین،لاہور ترجمہ: مقدمہ دین اسلام ایک معتدل اور متوازن ضابطہ حیات اور نظام زندگی ہے۔جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں انسانوں میں اصحاب اعتدال کے ساتھ ساتھ دو انتہائیں بھی ہمیشہ نظر آتی ہیں ۔ دین اسلام کی تاریخ میں خلفائے راشدین اور بنو امیہ ہی کے دور سے اہل سنت کے معتدل اور متوازن مکتبہ فکر(School of Thought)کے بالمقابل دو انتہائیں اعتزال اور خوارجیت کے نام سے پیدا ہوئیں ۔ تحریک اعتزال سے معتزلہ وجود میں آئے کہ جنہوں نے یونانی فلسفہ وکلام کی روشنی میں دین اسلام کا ایک جدید ایڈیشن تیار کرتے ہوئے اسے معاصر فلسفہ و منطق(Philosophy and Logic)کے مطابق دکھانے کی ناکام کوشش کی۔ اس کے برعکس خوراجی رویے نے خوارج کو جنم دیا جنہوں نے اپنی انتہاپسندانہ سوچ کے مخالف مسلمان معاشروں کی تکفیر کرتے ہوئے انہیں نہ صرف مباح الدم اور واجب القتل قرار دیا بلکہ ان کے خلاف ایک باقاعدہ جنگ کا بھی آغاز کر دیا۔ عصر حاضر کی معروف اصطلاحات میں ہم اعتزال کو جدیدیت( Modernism)یا مابعد جدیدیت(Postmodernism)اور خوارجیت کو انتہا پسندی(Extremism)یا دہشت گردی (Terrorism)سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ معاصر دنیا میں تحریک جدیدیت اور دہشت گردی دونوں کی ابتدا مغرب سے ہوئی ہے اور ان دونوں تحریکوں نے اس عالم کے ایک بڑے خطے کو براہ راست یا بالواسطہ متاثر کیا ہے۔ جدیدیت اور ما بعد جدیدیت نے مسلمانوں کے ایک ذہین،دنیاوی تعلیم یافتہ، اشرافیہ اور مقتدر طبقے میں سیکولرازم کی آبیاری کی اور مذہب کو ریاست واجتماعی زندگی سے بے دخل کرنے کے عقیدہ کے جراثیم داخل کر دیے ۔ فی زمانہ ا سکالرز اور تجزیہ نگاروں کی ایک ایسی جماعت بھی موجود ہے جو اسلام کی ایسی تعبیر و تشریح چاہتے ہیں جو مغربی فکروفلسفہ،جدید عمرانی وسائنسی نظریات اور سپر پاورز کی خارجہ پالیسیوں کے عین مطابق ہو۔اور تو اور،پاکستانی یونیورسٹیز میں پروفیسرز اور طلبا کا ایک ایسا گروہ بھی موجود ہے جو