کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 428
علی ھذا القول من غیر إنکار۔ ‘‘[1] ’’اجماع سکوتی یہ ہے کہ کسی زمانے میں کسی مسئلے میں مجتہدین کی ایک جماعت ایک قول کہے اور باقی مجتہدین اس قول کو جان لینے کے بعد بھی خاموش رہیں اور اس کا انکار نہ کریں۔ ‘‘ اجماع سکوتی جمیع علماء کے ہاں ممکن الوقوع ہے لیکن اس کی حجیت کے بارے علماء کا اختلاف ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے اجماع سکوتی کی حجیت کے بارے علمائے أصول کے بارہ اقوال نقل کیے ہیں۔ [2]ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ ان اقوال کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ وللعلماء فیہ خمسۃ مذاہب أولھا مذھب الشافعی وعیسی بن أبان و الباقلانی والمالکیۃ: لایکون إجماعاً ولا حجۃ۔ ثانیھا مذھب أکثر الحنفیۃ والإمام أحمد: یعتبرإجماعاً وحجۃ قطعیۃ۔ ثالثھا مذھب أبی علی الجبائی أنہ إجماع بعد انقراض عصرھم لأن استمرارھم علی السکوت إلی الموت یضعف الاحتمال۔ رابعھا مذھب أبی ھاشم بن أبی علی أنہ لیس بإجماع لکنہ حجۃ و اختار الآمدی أنہ إجماع ظنی یحتج بہ وھو قریب من ھذا المذھب وأیدہ ابن الحاجب فی مختصرہ الکبیر والکرخی من الحنفیۃ۔ خامسھا مذھب ابن أبی ھریرۃ أنہ إن کان القائل حاکماً لم یکن إجماعاً ولا حجۃ وإلا فھو إجماع وحجۃ۔ ‘‘[3] ’’اس مسئلے میں علماء کے پانچ مذاہب ہیں۔ پہلا مذہب امام شافعی‘ عیسی بن أبان‘ باقلانی رحمہم اللہ اور مالکیہ کا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ نہ تو اجماع ہے اور نہ ہی حجت ہے۔ دوسرا مذہب جمہور حنفیہ اور امام أحمد رحمہ اللہ کا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ اجماع اور قطعی حجت ہے۔ تیسرا مذہب أبو علی الجبائی رحمہ اللہ کاہے کہ یہ اجماع تو ہے لیکن ان مجتہدین کے زمانہ کے گزر جانے کے بعد کیونکہ موت تک ان کا سکوت پر استمرار ایک ضعیف احتمال ہے۔ چوتھا مذہب أبو ہاشم رحمہ اللہ کا ہے کہ یہ اجماع تو نہیں ہے لیکن حجت ہے۔ علامہ آمدی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ یہ ایک ظنی اجماع ہے لیکن قابل احتجاج ہے۔ علامہ آمدی رحمہ اللہ کا موقف بھی چوتھی رائے کے قریب قریب ہے۔ ابن حاجب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’المختصر‘ میں اور حنفیہ میں سے امام کرخی رحمہ اللہ نے بھی اسی مذہب کی تائید کی ہے۔ پانچواں قول ابن أبی ہریرۃ رحمہ اللہ کا ہے کہ اگر قائل حاکم ہو تو یہ نہ تو اجماع ہوگا اور نہ ہی حجت اور اگر وہ حاکم نہ ہو تو یہ اجماع بھی ہے اور حجت بھی۔ ‘‘ جو علماء اجماع سکوتی کی حجیت کے قائل ہیں ‘ انہوں نے اس کے حجت ہونے کے لیے کچھ شرائط عائد کی ہیں۔ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ ان شرائط کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ أما القائلون بحجیۃ الإجماع السکوتی وھم(الحنفیۃ والحنابلۃ)فقد اشترطوا فی توافر ھذا الإجماع:۱۔ أن یکون السکوت مجرداً عن علامۃ الرضا أو الکراھۃ۔ ۲۔ وأن ینتشر الرأی المقول بہ من مجتھد بین أھل العصر۔ ۳۔ وتمضی مدۃ کافیۃ للتأمل والبحث فی المسألۃ۔ ۴۔ وأن تکون المسألۃ اجتھادیۃ۔ ۵۔ وأن تنفی الموانع التی تمنع من اعتبار ھذا السکوت موافقۃ کالخوف من سلطان جائر أو عدم مضی مدۃ تکفی للبحث أو أن یکون الساکت ممن یرون أن کل مجتھد مصیب فلا ینکر ما یقولہ غیرہ لأنہ من مواضع الاجتھاد أو یعلم أنہ لو أنکر لا یلتفت إلیہ ونحو ذلک۔ ‘‘[4] ’’جو لوگ اجماع سکوتی کی حجیت کے قائل ہیں یعنی حنفیہ اور حنابلہ‘ انہوں نے اس اجماع کے پائے جانے میں چند شرائط عائد کی ہیں۔ پہلی شرط تو یہ ہے کہ مجتہدین کے ایک طبقے کا سکوت رضا یا کراہت کی علامات سے خالی ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ جو رائے کسی ایک
[1] أصول الفقہ الإسلامی:۱؍ ۵۵۲ [2] إرشاد الفحول: ۱؍ ۲۲۴۔ ۲۲۶ [3] أصول الفقہ الإسلامی:۱؍ ۵۵۲ [4] أیضاً: ص۵۵۳