کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 427
قول کی مخالفت کی ہوتی تو اس کا اعتبار ہو تا۔ ‘‘
محمد عمار خان ناصر لکھتے ہیں :
’’لیکن بالبداہت واضح ہے کہ صحابہ کے دور کے حوالے سے بھی یہ محض ایک نظری امکان ہے‘ اس لیے کہ کوئی ایک مثال بھی ایسی موجود نہیں جس میں بلا استثنا تمام اہل الرائے صحابہ کو کسی موقع پر جمع کیا گیا ہو‘ ان سے کسی علمی مسئلے کے بارے رائے دریافت کی گئی ہو اور ان سب نے کوئی ایک متفقہ رائے اختیار کر لی ہو۔ ‘‘[1]
سلف صالحین کی ایک جماعت کاخیال ہے کہ اجماع صریح ‘حجت شرعیہ توہے لیکن اس کا وقوع بہت مشکل ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں تو اجماع ممکن تھااور واقع بھی ہوا ہے لیکن ان کے زمانہ کے بعد اس کا وقوع ممکن نہیں ہے۔ [2]
امام شافعی رحمہ اللہ نے اجماع کے ممکن الوقوع ہونے کے اعتبار سے مذکورہ بالا اشکال کابہت ہی عمدہ جواب دیا ہے۔ امام صاحب کا کہنا یہ ہے کہ اجماع صریح‘ ممکن الوقوع ہے لیکن اس کے واقع ہونے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ کسی ایک مجلس یا مکان میں جمیع علماء و فقہاء جمع ہوں اوراپنی آراء کا صراحت سے اظہارکریں یا ایک عالم دین جمیع بلاد اسلامیہ کا سفر کرتے ہوئے تمام فقہاء کی آراء جمع کرے بلکہ اس کا وقوع یوں ممکن ہے کہ دین اسلام میں کوئی مسئلہ اس قدر واضح اور صریح ہو کہ اس کے بارے میں اگر تم کسی بھی شخص یاعالم دین سے پوچھو تو وہ اس کا ایک ہی جواب دے گا۔ مثلاً دین اسلام میں پانچ نمازیں فرض ہیں ‘ یہ مجمع علیہ مسئلہ ہے لیکن کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ جمیع علماء و فقہاء سے صراحتاً نماز کی فرضیت کے بارے میں رائے معلوم کر سکے اور اس کی بنیاد پر اجماع کا دعوی کرے اور نہ ہی کبھی تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ کسی زمانے میں جمیع صحابہ‘ تابعین یا علماء نے کسی ایک جگہ جمع ہو کر پانچ نمازوں کی فرضیت کے بارے میں اتفاق کا اظہار کیا ہو۔ بلکہ پانچ نمازوں کی فرضیت کو ہم اس طرح مجمع علیہ مسئلہ کہیں گے کہ اگر کسی بھی مسلمان یا عالم دین سے تم اس مسئلے کے بارے میں پوچھو گے تو وہ تمہیں ایک ہی جواب دے گا۔ [3]
یہ اجماع صریح آج کے دور میں بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ہم کہہ سکتے ہیں ‘آج بھی مسلمانوں کا پانچ نمازوں کی فرضیت پر اجماع ہے۔ اگر کوئی شخص اس پر یہ اشکال وارد کرے کہ اہل قرآن اور منکرین حدیث تو پانچ نمازوں کی فرضیت کے قائل نہیں ہیں توپھر اجماع کا دعوی کیسے ممکن ہے۔ اس کا یہی جواب ہے کہ نماز أصول دین میں سے ایک أصل ہے اور اس کی فرضیت صحابہؓ کے دور سے بالاجماع منقول ہے۔ اگر ما بعد کے ادوار میں کچھ فرقوں نے اس کی فرضیت کا انکار کر دیا تویہ گروہ دائرہ اسلام ہی سے خارج ہو جاتے ہیں لہذا اجماع کا دعوی برقرار رہا۔ اسی طرح ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے پر امت کا اجماع ہے۔ اگرچہ کسی ایک مجلس یا مکان میں جمع ہو کر علماء نے ان کے غیر مسلم ہونے کا فتوی جاری نہیں کیا اور نہ مشرق و مغرب کے جمیع علماء میں سے ہر ہرعالم دین کی رائے ان کے بارے میں ہمیں صراحت سے معلوم ہے لیکن اس کے باوجود اجماع کا دعوی جائز ہے اور یہ دعوی اسی معنی میں ہو گا‘ جس کو امام شافعی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔ کیونکہ ایک تو ختم نبوت کا مسئلہ دین اسلام کے بنیادی مسائل میں سے ہے اور دوسرا جس بھی مسلمان عالم دین کے سامنے اس گروپ کے عقائد بیان کیے جائیں گے تو اس کا ان کے بارے میں یہی فتوی ہو گا۔ پس ہمارے نزدیک اجماع صریح سے مراددین کے وہ صریح و بنیادی مسائل ہیں کہ جن کے بارے علماء کی ایک معتد بہ جماعت اپنی رائے کا اظہار اپنے قول اور عمل سے کرے اور بقیہ علماء میں سے کسی بھی عالم دین سے جب اس مسئلہ کے بارے میں پوچھا جائے تووہ قولی یا عملی صراحت سے اسی رائے کا اظہار کریں۔
اجماع صریح کے بالمقابل دوسری قسم اجماع سکوتی کی ہے۔ ڈاکٹروہبہ الزحیلی حفظہ اللہ اجماع سکوتی کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ ھو أن یقول بعض المجتھدین فی العصر الواحد قولاً فی مسألۃ و یسکت الباقون بعد إطلاعھم
[1] ’حدود وتعزیرات :چند أہم مباحث‘ مولانا مفتی عبد الواحد کی تنقیدات کا ایک جائزہ : ص۱۱
[2] مجموع الفتاوی:۱۱؍ ۳۴۱
[3] الرسالۃ:ص ۳۵۷۔ ۳۵۹‘۴۷۱۔ ۴۷۲ ؛ الأم :۷؍ ۲۸۱