کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 426
کأن یجتمع العلماء فی مجلس ویبدی کل منھم رأیہ صراحۃ فی المسألۃ وتتفق الآراء علی حکم الواحد أو أن یفتی کل عالم فی المساألۃ برأی وتتحد الفتاوی علی شیء واحد وھو حجۃ عند الجمھور کما عرفنا۔ ‘‘[1] ’’اجماع صریح سے مراد ہے کسی معین مسئلے کے شرعی حکم پر مجتہدین کی آراء‘ ان کے اقوال یا افعال کی روشنی میں متفق ہو جائیں۔ مثلاً علماء کسی مجلس میں جمع ہوں اور ہر ایک اس مسئلے میں اپنے رائے صراحت سے بیان کرے اور بالآخر ایک ہی حکم شرعی پر ان کی آراء جمع ہو جائیں یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی مسئلہ میں ہر مفتی اپنی رائے بیان کرتے ہوئے کوئی فتوی جاری کرے اور ان کے فتاوی ایک ہی حکم پر جمع ہو جائیں۔ اجماع کی یہ قسم جمہور کے نزدیک حجت ہے۔ ‘‘ اجماع صریح جمہور علماء کے نزدیک حجت ہے جبکہ بعض علماء نے اس کے وقوع کو ناممکن قرار دیا ہے اور اس کے وقوع پذیر ہونے کے اعتبار سے اس کا انکار کیا ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ ‘ امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’من ادعی الإجماع فھو کاذب۔ ‘‘[2] ’’ جس نے اجماع کا دعوی کیا وہ جھوٹا ہے۔ ‘‘ زہیر شفیق لکھتے ہیں : ’’ والذی یتضح من النصوص التی أوردناھا أن الاجماع الکامل وھو معرفۃ جمیع آراء الفقھاء والمجتھدین صراحۃ فی المسألۃ لم یقع فی عھد الصحابۃ وذلک أنہ رغم الإقامۃ الجبریۃ التی فرضھا عمر علی الفقھاء فی خلافتہ کان ھو بنفسہ یرسل القضاۃ الفقھاء إلی الأمصار لیحکموا بین الناس کإرسالہ أبا موسی الأشعری إلی البصرۃ مثلا لیقضی بین الناس و ھو الفقیہ الذی یعد أحد الفقھاء فی عصر الرسول و لم یکن یستخرج رأیہ أو أقل ما یقال لم یعرف أنہ استخرج رأیہ فی المسائل التی عرضت لعمر و التی لم یعرف لھا حکمالا من کتاب و لا سنۃ و لھذا یمکن أن نقول أن الإجماع الذی کان علی عھد الصحابہ رضی اللّٰہ عنھم ھو إجماع الفقھاء حاضری مرکز الخلافۃ أما من سواھم من الفقھاء و المجتھدین فإجماعھم یکون تبعاً لإجماع الذی صدق علیہ الخلیفۃ و عمل بہ و أفتی الناس علیہ و إن کان قولھم إن خالفوا یعتد بہ۔ ‘‘[3] ’’جن نصوص کا ہم نے تذکرہ کیا ہے‘ ان سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اجماع کامل یعنی کسی مسئلہ میں جمیع فقہاء اور مجتہدین کی آراء کی معرفت‘ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں واقع نہیں ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ‘ جنہوں نے اپنے دور خلافت کے اجتہادات کو جبراً نافذ بھی کیا‘ ہی تھے جو مختلف شہروں کی طرف فقہاء اور قاضیوں کو لوگوں کے مابین فیصلوں کے لیے بھیجتے تھے جیسا کہ انہوں نے حضرت أبو موسی أشعری رضی اللہ عنہ کو بصرہ کی طرف بھیجاتاکہ وہ لوگوں کے مابین فیصلے کریں اور یہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک فقیہ صحابی رضی اللہ عنہ تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی فقہاء صحابہ رضی اللہ عنہم میں شمار ہوتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ( اپنے زمانے کے اجتہادات )میں ان سے رائے طلب نہیں کرتے تھے یا کم ازکم یہ کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ سے یہ معلوم نہیں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کبھی ان سے بھی ان مسائل میں رائے طلب کی ہوجو انہیں مرکز خلافت میں درپیش آتے تھے اور ان کا حکم کتاب و سنت سے معلوم نہ ہوسکتا ہو۔ اسی لیے اس بات کا امکان ہے کہ ہم یہ بات کہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور کا اجماع مرکز خلافت مدینہ منورہ میں موجود فقہاء کا اجماع تھا۔ جبکہ ان کے سواء فقہاء اور مجتہدین کا اجماع اس اجماع کے تابع ہوتا ہے ‘ جس کی تصدیق خلیفہ کی طرف سے ہوتی تھی اور خلیفہ اس پر عمل کرتا اور ا س کے مطابق لوگوں کو فتوی دیتا تھا۔ اور اگر ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے خلیفہ کے
[1] أصول الفقہ الإسلامی: ۱؍ ۵۵۲ [2] إعلام الموقعین:۱؍ ۳۰ ؛مجموع الفتاوی: ۱۹؍ ۲۷۱ [3] الإجماع: ص۱۳۔ ۱۴