کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 424
کسی معاملے پرہو۔ ‘‘
موفق الدین ابن قدامہ المقدسی حنبلی رحمہ اللہ متوفی۶۲۰ھ اجماع کی تعریف میں لکھتے ہیں :
’’ ومعنی الإجماع فی الشرع اتفاق علماء العصر من أمۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی أمر من أمور الدین۔ ‘‘[1]
’’شرع میں ’ اجماع‘ سے مراد کسی زمانے میں امت محمدیہ کے علماء کا امور دینیہ میں سے کسی أمر پر اتفاق کر لیناہے۔ ‘‘
علامہ أبو الحسن الآمدی الشافعی رحمہ اللہ متوفی ۶۳۱ھ لکھتے ہیں :
’’ الإجماع عبارۃ عن اتفاق جملۃ أھل الحل والعقد من أمۃ محمد من عصر من الأعصار علی حکم واقعۃ من الوقائع۔ ‘‘[2]
’’اجماع سے مراد کسی زمانے میں امت محمدیہ کے جملہ اہل حل و عقد کا کسی واقعے کے شرعی حکم پر اتفاق کر لینا ہے۔ ‘‘
علامہ علاؤ الدین البخاری حنفی رحمہ اللہ متوفی ۷۳۰ھ فرماتے ہیں :
’’ وقیل وھو الأصح إنہ عبارۃ عن اتفاق المجتھدین من ھذہ الأمۃ فی عصر علی أمر من الأمور۔ ‘‘[3]
’’ایک قول کے مطابق اور یہ قول صحیح ترین ہے‘ اجماع سے مراد اس امت کے مجتہدین کا کسی زمانے میں کسی معاملے پر اتفاق کر لیناہے۔ ‘‘
امام بدر الدین الزرکشی رحمہ اللہ متوفی ۷۹۴ھ فرماتے ہیں :
’’ وأما فی الاصطلاح فھو اتفاق مجتھدین أمۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد وفاتہ فی حادثۃ علی أمر من الأمور فی عصر من الأعصار فخرج اتفاق العوام۔ ۔ ۔ ویخرج أیضا اتفاق بعض المجتھدین وبالإضافہ إلی محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج اتفاق الأمم السابقۃ۔ ۔ ۔ وقولنا بعد وفاتہ قید لا بد منہ علی رأیھم فإن الإجماع لا ینعقد فی زمانہ علیہ السلام کما سنذکرہ وخرج بالحادثۃ انعقاد الإجماع علی الحکم الثابت بالنص والعمل بہ وقولنا علی أمر من الأمور یتناول الشرعیات والعقلیات والعرفیات واللغویات وقولنا فی عصر من الأعصار لیرفع وھم من یتوھم أن المراد بالمجتھدین من یوجد إلی یوم القیامۃ وھذا التوھم باطل فإنہ یؤدی إلی عدم تصور الإجماع والمراد بالعصر منا من کان من أھل الاجتھاد فی الوقت الذی حدثت فیہ المسألۃ وظھر الکلام فیہ فھو من ذلک العصر ومن بلغ ھذا بعد حدوثھا فلیس من أھل ذلک العصر۔ ۔ ۔ واعلم أن أصل ھذا التعریف أشار إلیہ الشافعی فی الرسالۃ۔ ‘‘[4]
’’اصطلاحی طور پر اجماع سے مراد امت محمدیہ کے مجتہدین کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی بھی زمانے میں کسی بھی مسئلے میں وقوع پذیر قضیے میں اتفاق کرلینا ہے۔ پس مجتہدین کی قید لگانے سے عوام الناس نکل گئے۔ ۔ ۔ اسی طرح کل کی قید لگانے سے بعض مجتہدین کا اتفاق بھی نکل کیا۔ امت محمدیہ کی قید لگانے سابقہ امتوں کااتفاق خارج ہو گیا۔ ۔ ۔ اور آپ کی وفات کے بعد کی قید اس لیے لگائی گئی کہ علماء کے نزدیک اجماع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں واقع نہیں ہو سکتا۔ کسی واقعے کی قید کا تذکرہ اس لیے کیا گیا کہ نص سے ثابت شدہ حکم یا حکم پر عمل پر اتفاق کو اجماع نہیں کہتے۔ کسی بھی مسئلے کی قید لگانے سے شرعی‘ عقلی‘ عرفی اور لغوی سب امور داخل ہو گئے۔ کسی بھی زمانے کی قید اس لیے لگائی گئی تاکہ یہ وہم ختم ہو جائے کہ اجماع قیامت تک آنے والے مجتہدین کے اتفاق کا نام ہے اور یہ وہم باطل ہے کیونکہ اس کو مان لینے
[1] روضۃ الناظر وجنۃ المناظر:۱؍۱۳۰۔ ۱۳۱
[2] الإحکام فی أصول الأحکام: ۱؍ ۲۵۴
[3] کشف الأسرار: ۳؍ ۳۳۷
[4] البحر المحیط فی أصول الفقہ: ۳؍ ۴۸۷