کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 419
وغیرہ ہیں۔ ‘‘ 4۔ چوتھی قسم کی علمی مجالس کی مثال استفتاء کی سی ہے۔ یعنی کوئی ایک عالم دین یامحقق کسی مسئلے میں اپنی تحقیق علماء کی ایک جماعت کے سامنے پیش کرے اور پھر ان کی اتفاقی رائے کو ایک اجتماعی فتوی کی صورت میں بیان کر دیا جائے۔ ڈاکٹر أحمد رئیسونی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ قیام أحد العلماء‘ أو عدد منھم‘ بإعداد فتوی‘ أو اجتھاد علمی ما‘ ثم عرضہ علی عدد من العلماء‘ یکثر أو قل‘ وقیامھم بدراستہ وتقدیم آرائھم فی شأنہ‘ ثم صیاغتہ علی نحو یقبلونہ ویوقعون علیہ بالموافقۃ۔ ومثل ھذا یحصل الیوم مرارا‘ خاصۃ فی بعض الأحداث والنوازل الطارئۃ‘ التی یطلب فیھا الموقف الشرعی للعلماء بصورۃ مستعجلۃ۔ ‘‘[1] ’’ایک یا ایک سے زائد علماء کا کسی قسم کا علمی اجتہاد یا فتوی تیار کرنا اور پھر اس کو علماء کی ایک قلیل یاکثیرجماعت پر پیش کرنا۔ ان علماء کا اس تحقیق کو پڑھنااور اس مسئلے کے بارے اپنی آراء پیش کرنا۔ پھر اس تحقیق کو اس طرح شکل دینا کہ جس طرح علماء نے اس کو قبول کیا ہو اور اس کے ساتھ موافقت اختیار کی ہو۔ ‘‘ علمی مجلس أہل حل و عقد کے فتاوی کی حیثیت علمی مجلس اہل حل و عقد سے صادر ہونے والا فتوی کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ ایسی مجلس کے تمام اراکین باہمی مباحثے اور مکالمے کی صورت میں کسی ایک رائے پر متفق ہو جائیں۔ اس صورت میں اس کو جمہور کااجماع کہا جاسکتا ہے جیسا کہ بعض سلف صالحین نے یہ اصطلاح استعمال بھی کی ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے اگر کسی خطہ میں ایک ہی مجلس علمی قائم ہو اور کسی پیش آمدہ مسئلے میں اس مجلس علمی کی رائے متفقہ طور پر جاری ہو جائے تو پھر مستفتی کے لیے اس مجلس کے فتوی پر عمل لازم ہو گا۔ شیخ عبد الستار عبد الجبار لکھتے ہیں : ’’ والفتوی وھی تصدر من ھذہ المؤسسۃ تأخذ إحدی الصورتین:إما أن تمثل إجماع عندھا تکون ھذہ الفتوی ملزمۃ لأن الموضع الذی فیہ المستفتی لا یوجد فیہ مفت غیر ھذہ المؤسسۃ ولأن الاتفاق قد حصل بین أھل الشان وفی مثل ھذہ الحال تکون الفتوی ملزمۃ کما ذکر ذلک النووی۔ وأما إذا اختلف المفتون فیجوز للمستفتی التخیر ولایجوز أن یلزم أحد برأی أحد إلا فی حالۃ الشرکات والمصارف الإسلامیۃ التی ألزمت نفسھا مفتیاً معیناً أو مجلساً شرعیاً معیناً۔ ‘‘[2] ’’جو فتوی اس قسم کی مجلس علمی سے صادر ہو گا‘ اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو وہ علماء کا اتفاقی فتوی ہو گااور اس وقت اس فتوی کا نفاذ لازم ہو گاکیونکہ جس جگہ فتوی پوچھنے والا فتوی پوچھ رہا ہے اس خطے میں اس مجلس کے علاوہ کوئی اور مفتی نہیں ہے۔ اور اس کے لزوم کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اہل علم کی ایک عظیم جماعت نے یہ فتوی جاری کیا ہے پس اس حالت میں مستفتی کے لیے اس فتوی پر عمل لازم ہو گاجیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے ذکر کیا۔ لیکن اگر مجلس کے علماء کا آپس میں ہی اختلاف ہو جائے تو فتوی پوچھنے والے کے لیے اب تخییر جائز ہے۔ اس صورت(یعنی اختلاف علماء)میں یہ جائز نہیں ہے کہ کسی بھی شخص کو کسی مفتی کی رائے پر عمل کا پابند بنایا جائے سوائے اس کے کچھ کمپنیاں یا اسلامی بینک اپنے لیے یہ لازم کر لیں کہ وہ کسی معین مفتی یا مجلس شرعی کے فتوی کی پابندی کریں گے۔ ‘‘ اگر کسی خطہ ارضی میں مسلمان علماء کی کوئی مجلس قائم ہے اور لوگ مسائل شرعیہ میں اس مجلس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اور وہ مجلس کسی شخص یا ادارے کواتفاق رائے سے فتوی جاری کر دیتی ہے تو اس شخص یا ادارے کے لیے اس فتوی کی پابندی کے لزوم کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنے کسی مسئلے میں ’یورپین اسلامی کونسل برائے افتاء و تحقیق‘ کی طرف رجوع کرتا ہے اور کونسل اس کے مسئلے
[1] الاجتھاد الجماعی: ص۹ [2] Sheikh Abdul Sattar Abdul Jabbar, Muas'sasah Alifta Aljimae, Retrieved August 29 ,2009, from http://www.majlis-iq.org/Araa.htm