کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 418
لیے ہمارا نقطہ نظر یہی ہے کہ اگرتابعین اور أئمہ أربعہ کے دور کے بعد بھی اجتماعی اجتہاد کی مجالس قائم رہتی تو شاید فقہ اسلامی کی تاریخ پر اس کے بہت مثبت اثرات ظاہر ہوتے۔
غیر سرکاری مجلس أہل حل و عقد کی اقسام
ایک غیر سرکاری مجلس علمی اپنی ہیئت ترکیبی کے اعتبار سے کئی قسم کی ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر أحمد رئیسونی حفظہ اللہ نے اس کی چار اقسام کا تذکرہ کیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں :
1۔ کسی ایک بر اعظم یا عالم اسلام کی سطح پر کوئی ایک علمی مجلس جو ایک سے زائد ممالک یا مذاہب اسلامیہ کے نمائندگان پر مشتمل ہو۔ ڈاکٹر أحمد رئیسونی حفظہ اللہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ وجودہ ھیئۃ قارۃ‘ تضم علماء مجتھدین محددین‘ من عموم الأقطار والمذاھب الإسلامیۃ‘ تجتمع وتتدارس القضایا المعروضۃ علی أنظارھا‘ وتصدر فیھا عن رأی اتفاقی أو أغلبی۔ والمثال ھنا ھو المجامع الفقھیۃ العالمیۃ غیر المذھبیۃ مثل: المجمع الفقھی الإسلامی بمکۃ‘ مجمع الفقہ الإسلامی بجدۃ‘ مجمع البحوث الإسلامیۃبالأزھر‘ المجمع الفقھی لأمریکا الشمالیۃ‘ المجلس الأوروبی للإفتاء والبحوث۔ ‘‘[1]
’’کسی ایک براعظم پر مشتمل کوئی ادارہ ہو جو عام ممالک اورمذاہب اسلامیہ کے محدود مجتہد علماء کو شامل ہو۔ یہ علماء پیش آمدہ مسائل کا ان کے نظائر کی روشنی میں اجتماعی مطالعہ کریں۔ پھر اس بارے کوئی اتفاقی یا اکثریتی رائے سے فیصلہ جاری کریں۔ اس کی مثال وہ عالمی فقہی مجالس ہیں کہ جن کی بنیاد کوئی ایک مخصوص مذہب نہیں ہے جیسا کہ’اسلامی فقہی اکیڈمی‘ مکہ مکرمہ یا ’اسلامی فقہ اکیڈمی‘جدہ یا ’ادارہ تحقیقات اسلامیہ‘ أزہر یا ’شمالی امریکہ کی فقہ اکیڈمی‘ یا ’یورپین کونسل برائے افتاء و تحقیق ‘ہے۔
2۔ دوسری قسم میں وہ ادارے شامل ہیں جو کسی ایک فقہی مذہب یا ایک خطے کے علماء پر مشتمل ہوں۔ ڈاکٹر أحمد رئیسونی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ وجودھیئۃ مماثلۃ‘ لکنھا تقتصر علی علماء من قطر واحد‘ أو مذھب واحد۔ والأمثلۃ ھنا ھی المجامع الفقھیۃ وھیئات الإفتاء القطریۃ‘ أو المذھبیۃ۔ وقد أصبحت ھذہ الھیئات موجودۃ ومعمولاً بھا لدی معظم الدول الإسلامیۃ۔ ‘‘[2]
’’اسی قسم کی کسی مجلس کا ہونا لیکن وہ کسی ایک خطے یا مذہب کے علماء پر مشتمل ہو۔ اس کی مثال فقہی مجالس یا علاقائی و مذہبی افتاء کے ادارے ہیں۔ اس قسم کے ادارے اس وقت اکثر و بیشتر اسلامی ممالک میں موجود ہیں اور ان پرکام ہو رہا ہے۔ ‘‘
3۔ تیسری قسم کی علمی مجالس وہ ہیں جو کسی خاص نظم کے تحت نہ ہوں بلکہ علماء کی ایک جماعت مخصوص وقت کے لیے ایک خاص جگہ پر جمع ہو اور کانفرنس یا سیمینار کی شکل میں کوئی اجتماعی رائے جاری کردے۔ ڈاکٹرأحمد رئیسونی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ اجتماع عدد کثیر من العلماء(عشرات مثلاً)‘ بصفۃ غیر منتظمۃ‘ من قطر واحد أومن عدۃ أقطار‘ وقیامھم بتدارس قضیۃ ما‘ وإصدار رأیھم الجماعی فیھا۔ ومثل ھذا یحصل فی بعض الندوات والمؤتمرات العلمیۃ۔ ‘‘[3]
’’کسی ایک علاقے یا ایک سے زائدممالک سے تعلق رکھنے والے علماء کی ایک کثیر تعداد مثلاً دسیوں علماء کا کسی نظم کے بغیر جمع ہونااور کسی بھی مسئلے کے بارے میں باہمی گفتگو کرنا اور پھر اس کے بارے میں ایک اتفاقی فیصلہ جاری کرنا۔ اس کی مثال بعض کانفرنسیں اور سیمینارز
[1] الاجتھاد الجماعی: ص۸۔ ۹
[2] أیضاً: ص ۹
[3] أیضاً