کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 417
مجالس یا ریاستوں اورحکومتوں کے ماتحت اداروں میں محصور کر دیا جائے کیونکہ یہ صورت حال علماء و فقہاء کے انفرادی انحرافات سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جب ایک فقیہ غلطی یا انحراف کرتا ہے توکوئی دوسرا اس کی غلطی یا انحراف واضح کردیتا ہے اوراس کی تردید یا اس پر نقد کرتا ہے۔ جبکہ سرکاری مجالس علمیہ سرکاری مہر پر قبضہ کرلیتی ہیں اور اپنی خدمات کے ذریعے حکومتوں اور بادشاہوں کے لیے ان کی سلطنت کومضبوط کرنے اور ان کے گروہی‘ سیاسی اور ذاتی مفادات کو پورا کرنے کے لیے کَل پرزے مہیا کرتی ہیں۔ ‘‘
ڈاکٹر توفیق الشاوی حفظہ اللہ کے یہ خدشات بعض سرکاری مجالس علمیہ کے بارے میں تودرست ہیں لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ہر سرکاری مجلس علمی لازماً حکومتی مفادات اور مقاصد کوہی پورا کرنے والی ہوگی‘ صحیح نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں اصل مسئلہ کسی مجلس کے سرکاری یا غیر سرکاری ہونے کا نہیں ہے بلکہ اراکین مجلس کاہے۔ ورنہ تو خلفائے راشدین کے دورمیں جومجالس شوری تھیں وہ بھی ایک طرح سے سرکاری نوعیت ہی کی مجالس تھیں کہ جن کے اجتماعی فتاوی جات کوبعض اوقات ملکی قانون کادرجہ بھی دے دیا جاتاتھا۔ پاکستانی حکومت کی زیر نگرانی جب’ اسلامی نظریاتی کونسل‘ کی بنیادرکھی گئی تو اس میں جلیل القدر علماء مثلاً مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ ‘ مولانا شمش الحق افغانی رحمہ اللہ اور مولانا تقی عثمانی حفظہ اللہ وغیرہ شامل تھے۔ ان علماء کی پیش کردہ تحقیقاتی رپورٹس میں اگرچہ خطاء اور اختلافات کے امکانات موجود ہیں لیکن کسی بھی مذہبی طبقہ یا علماء کی جماعت کی طرف سے یہ بات نہیں ہے کہ’ اسلامی نظریاتی کونسل‘ کاحصہ بننے کے بعد یہ علماء حکومت کے آلہ کار بن کر حکومتی مقاصد کی تکمیل کے لیے تحقیقات پیش کرتے رہے۔ اسی طرح سعودی عرب کے علماء کی سرکاری مجلس’ہیئۃ کبار العلماء‘اور مصر کے فقہاء کی حکومتی اکیڈمی’مجمع البحوث الإسلامیۃ‘کے بارے میں یہ کہنا مشکل تو کیا تقریباً ناممکن أمر ہے کہ ان مجالس کے علماء سرکاراورحکومت کی رضامندی اور خوشنودی کے لیے فتاوی جاری کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ بھی ایک فیشن بن گیا ہے کہ جب بھی کسی عالم دین یاعلما ء کی مجلس کے کسی فتوی سے کسی دوسرے صاحب علم کو اختلاف ہوتا ہے تو وہ ان أصحاب علم کے فتاوی کی شرعی بنیادوں کا جواب دینے کی بجائے صرف یہ کہہ کے فارغ ہوجاتے ہیں کہ یہ تو حکومتی علماء ہیں لہذا ان کے فتوی کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔
شاہ عبد الرحیم دہلوی رحمہ اللہ اور بعض دوسرے علماء کا خیال یہ ہے کہ تاریخ اسلام کے طویل دورانیے میں اجتماعی اجتہاد کی مجالس کا نہ پایاجانا‘ علماء کی کوتاہی ہے۔ ڈاکٹر توفیق الشاوی حفظہ اللہ ‘ شاہ عبد الرحیم رحمہ اللہ کے اس نقطہ نظر سے متفق نہیں ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
’’لذلک فإننا لا نشارک((السنھوری))أو((عبد الرحیم الدھلوی))أو أمثالھم ممن یعتقدون أن عدم وجود المجامع الفقھیۃ طوال التاریخ الإسلامی کا ن مجرد تقصیر من علمائنا أو تکلف فی أنظمتھا‘ والصواب‘ فی نظرنا‘ أنہ کان ضرورۃ لإبعاد الفقہ عن سیطرۃ الحکام واستقلال عن الدول۔ ‘‘[1]
’’پس ہم سنہوری‘ شاہ عبد الرحیم اور ان کے جیسا نقطہ نظر رکھنے والے دیگر علماء سے اس بات میں اتفاق نہیں کرتے کہ تاریخ اسلامی کے طویل دورانیے میں ان مجالس علمیہ کانہ ہونا‘ محض علماء کی ایک کوتاہی ہے یا ان کے نظاموں میں تکلف ہے۔ ہماری رائے میں صحیح بات یہ ہے کہ علماء کا ایسی علمی مجالس کاقائم نہ کرنا ایک ضرورت کے تحت تھااور وہ یہ کہ فقہ اسلامی کو حکمرانوں کے تسلط سے دور اور ریاستوں سے آزاد کروایا جائے۔ ‘‘
ہماری رائے یہ ہے کہ شاہ عبد الرحیم رحمہ اللہ کا قول راجح ہے اور ڈاکٹر توفیق الشاوی حفظہ اللہ کی تاویل دوراز قیاس ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ اور امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ پرجبری طلاق اور خلق قرآن کے مسئلے میں سرکاری موقف اختیار کرنے کے لیے جبر و تشدد کی انتہاء کردی گئی لیکن ان أئمہ سلف نے اس ظلم و ستم کے باوجود حق بات کی اتباع اور اس کے مطابق فتوی دینانہ چھوڑا۔ جب فقہاء عظام اپنی انفرادی حیثیت میں جابر حکمرانوں کے سامنے نہ جھکتے تھے تو اجتماعی حیثیت میں یہ کیسے ممکن تھا کہ کوئی حاکم وقت فقہاء کی کسی اجتماعی مجلس علمی کو اپنا زر خرید ادارہ بنا لیتا۔ فقہائے سبعہ رحمہم اللہ ‘امام مالک رحمہ اللہ یاامام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہی مجالس‘ کیا حکمرانوں کے مفادات پورے کرتی تھیں ؟ اس
[1] فقہ الشوری والاستشارۃ:ص۱۹۰