کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 416
علماء کو آسانی ہو۔ مذکورہ فقہی کاوشوں (أئمہ سلف کے فقہی ذخیرے)سے استفادہ کرتے ہوئے اور علم جدید سے بہر ور دیانت دار لوگوں کی رائے اور معلومات کو سامنے رکھ کر کھلے دل و دماغ سے اجتہادی مسائل کا حل اس اجتماعی طریقے سے نکالا جائے‘ توکوئی وجہ نہیں کہ ہم عصری مسائل کوشرعی احکام کے ساتھ تطبیق نہ دے سکیں اور ان کا مناسب حل تلاش نہ کر سکیں۔ ‘‘[1]
غیر سرکاری علمی مجلس أہل حل و عقد
اکثر و بیشترعلماء کا کہنا یہ ہے کہ علمی مجلس اہل حل و عقد کو سرکاری یا حکومتی سرپرستی حاصل نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس قسم کی ریاستی نگرانی ان کے اجتہاد و تحقیق کے آزادنہ عمل کو متاثر کر سکتی ہے۔ مولانا تقی عثمانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ ویجب أیضاً أن تکون ھذہ الجماعۃ حرۃ فی اتخاذ قراراتھا ولا تتأثر بضغوط سیاسیۃ من قبل الحکومۃ أو الأحزاب السیاسیۃ وغیرھا وأن یشارک کل فی المشاورۃ بذھن متفتح لکل رأی مستند إلی دلیل دون أن یتعصب لرأی مخصوص۔ ‘‘[2]
’’یہ بھی ضروری ہے کہ یہ مجلس اپنی قراردادوں کے پاس کرنے میں آزاد ہواور حکومت یادوسری سیاسی پارٹیوں وغیرہ کی طرف سے سیاسی دباؤ سے متاثر نہ ہواور اسی طرح اس مجلس کاہر رکن ہر اس رائے کے لیے کھلے ذہن کے ساتھ مشاورت میں شریک ہو‘ جو کسی دلیل کی بنیا دپر قائم ہو اور کسی مخصوص رائے کے حق میں متعصب نہ ہو۔ ‘‘
ڈاکٹر توفیق الشاوی حفظہ اللہ کاکہنا ہے کہ تاریخ اسلام کے ایک طویل دورانیے میں اجتہاد کی اجتماعی مجالس کے نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ہمارے فقہائے سلف کو یہ اندیشہ تھا کہ اس قسم کی مجالس کو حکمران وقت اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ لہذاا نہوں نے انفرادی اجتہاد کو اجتماعی اجتہادپر ترجیح دی۔ ڈاکٹر توفیق الشاوی حفظہ اللہ آج بھی علماء کو اجتماعی اجتہاد کی سرکاری و حکومتی مجالس سے دور رہنے کی نصیحت فرماتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ إن الخطر الذی کان یخشاہ الفقھاء السابقون وھو وقوع ھذہ المجالس تحت تأثیر الضغوط السیاسیۃ ما زال قائماً فی کثیر من البلاد‘ ونحن نشاھد الیوم کثیرا من المظاھر لانعدام الثقۃ بین الجماھیر والعلماء الذین یحتلون مناسب رسمیۃ ویتقاضون مرتبات حکومیۃ‘ مما جعل الناس عامۃ یعتقدون دائماً بأن تصریحاتھم بل فتاویھم وقراراتھم أیضاً تصدر لإرضاء ذوی السلطۃ‘ حتی أصبحوا یطلقون علی کثیر منھم لقب:((فقھاء السلاطین))‘ ولا نرضی أن یحاصر فقہ الشریعۃ فی مجامع السلاطین أو دوائر الدول والحکومات؛ لأن ذلک أخطر من انحرافات بعض العلماء أو الفقھاء کأفراد؛ لأن الفقیہ الفرد إذا انحرف أو أخطأ وجد من یرد علیہ أو یکشف خطأہ وانحرافہ أو ینتقدہ‘ أما المجامع فإنھا تحصل علی طابع رسمی یغری الحکومات والسلاطین باستخدامھا أداۃ لتمکین سلطتھم ‘وتحقیق أغراضھم الحزبیۃ أو السیاسیۃ أو الشخصیۃ۔ ‘‘[3]
’’بے شک وہ اصل خطرہ آج بھی اکثر و بیشتر ممالک میں موجود ہے کہ جس سے ہمارے فقہائے سلف بھی ڈرتے تھے‘ اور وہ ان مجالس علمیہ کاکسی سیاسی دباؤ کے تحت واقع ہونا ہے۔ ثقہ علماء کے نہ ہونے کی وجہ سے آج ہم اکثراس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ بیشتر علماء سرکاری مناسب پر جبراً قابض ہو جاتے ہیں اورحکومتی مراتب کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ان علماء کے بارے میں عامۃ الناس کی ہمیشہ سے یہی رائے رہی ہے کہ ان کی وضاحتیں بلکہ ان کے فتاوی اور قراردادیں أصحاب اقتدار کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہیں یہاں تک کہ ان علماء کی اکثریت پر لوگوں نے’ فقہائے سلاطین‘ کا لقب چسپاں کردیا۔ پس ہمیں یہ پسند نہیں ہے کہ فقہ اسلامی کو حکمرانوں کی
[1] سہ ماہی منہاج‘اجتہاد علماء کی نظر میں(سوالات و جوابات)‘ جنوری ۱۹۸۳ء‘ ص۲۸۶
[2] الاجتھاد الجماعی: ص۱۳
[3] فقہ الشوری والاستشارۃ: ص۱۹۰