کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 415
مجلس أہل حل و عقد کاانتخاب اور طریقہ تحقیق مجلس شوری کی طرح سرکاری مجلس اہل حل و عقد کے انتخاب کے بھی دو طریقے ہو سکتے ہیں۔ ایک تعیین کا طریقہ اور دوسرا انتخاب کا طریقہ۔ جہاں تک ’ مقتدر مجلس اہل حل و عقد ‘ کا تعلق ہے تو اس کے لیے ہمارے خیال میں انتخاب کا طریقہ ہی زیادہ مناسب اور بہتر ہے۔ کیونکہ اس مجلس کا کام امام وقت کا انتخاب ہے تو اس میں اسلامی ریاست کے تمام شہروں کے جمہور شہریوں کی رائے کااحترام ایک لازم أمرہے۔ ’مقتدر مجلس اہل حل و عقد‘ کو قومی اسمبلی کانام دیا جا سکتا ہے اور اس کا کام صدر ‘ وزیر اعظم اوروزرائے اعلی کا انتخاب اور ان کو معزول کرناہو۔ اہل حل و عقد کے اس انتخاب میں وہ تمام باتیں ملحوظ رہنی چاہئیں جن کا ذکر ہم مجلس شوری کے طریقہ انتخاب کے ذیل میں کر چکے ہیں۔ ’مقتدر مجلس اہل حل و عقد ‘کے انتخاب کے لیے تعیین کا طریقہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس طریقے کے مطابق اس مجلس میں سماجی تنظیموں کے رہنما‘ مذہبی قائدین‘ اسلامی تحریکوں اور جماعتوں کے امراء‘ مختلف مکاتب فکر کے مفتیان کرام‘متفرق وفاق المدارس کی انتظامیہ‘ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز‘بیورو کریسی‘ معروف صحافی‘ قبائل کے عمائدین‘ مختلف اداروں اور انجمنوں کے سربراہان‘ جاگیردار‘ گدی نشین‘اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے لڑنے والی صوبائی‘ لسانی اورعلاقائی تنظیموں کے لیڈرز ‘ حکومتی جہادی تحریکوں کے کمانڈرز‘ پولیس اور رینجرز کے آفیسرز‘ نیوی‘ فضائیہ اورآرمی کے جرنیلوں کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سینٹ کو علماء‘ فقہاء اور مختلف علوم و فنون کے منتخب ماہرین پر مشتمل ایک’ علمی مجلس اہل حل و عقد‘ بنایا جاسکتاہے۔ علمی مجلس کے انتخاب کے لیے ہمارے خیال میں بہترین طریقہ تعیین کا ہے کیونکہ یہ طریقہ اس مجلس کے مقاصد کو زیادہ اچھی طرح پورا کرنے والا ہے۔ اس ادارے کا کام انتظامی‘ مباح ‘ انتظامی اور اتفاقی امور میں ملک و قوم کے لیے قانون سازی کرنا ہو۔ عدالتی نظام میں شریعت اسلامیہ کے ماہر فقہاء اور علماء کی بطور جج تقرری کی جائے اور اعلی عدالتوں مثلاً ہائی کورٹس یاسپریم کورٹ کے جج حضرات اگر سینٹ کے پاس کیے گئے کسی قانون کو کتاب و سنت کے خلاف محسوس کریں تو اسمبلی یا سینٹ کو اس قانون پر نظر ثانی کاحکم جاری فرما سکتے ہوں۔ ایک غیر سرکاری علمی مجلس کی تعیین کا طریقہ کوئی سا بھی ہوسکتا ہے۔ مجلس ایک مذہب کے علماء پر بھی مشتمل ہو سکتی ہے جیسا کہ مولانا محمد یوسف بنوری صاحب کے دور میں کراچی کے دیوبندی علماء نے نئے مسائل میں فتوی جاری کرنے کے لیے ایک مشترکہ مجلس’مجلس تحقیق مسائل حاضرہ‘کے نام سے قائم کر رکھی تھی۔ یہ مجلس کچھ عرصہ تک متحرک رہی‘ اس کے بعد ختم ہو گئی۔ اسی طرح ایسی مجلس ایک سے زائد مذاہب کی نمائندگی بھی کر سکتی ہے جیسا کہ لاہور میں پچھلے کئی سالوں سے بریلوی‘ دیوبندی اور اہل حدیث علماء نے مل کے ’ملی مجلس شرعی‘کے نام سے جدید مسائل میں اجتہاد کے لیے ایک مشترکہ مجلس قائم کر رکھی ہے جس کے اجلاس وقتاً فوقتاً منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ مولانا صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ علمی مجلس اہل حل و عقد کے لیے تعیین کے طریقے کو پسند کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں : ’’ اجتماعی اجتہاد ہی کے ذریعے سے عصری مسائل کا حل تلاش کیا جانا چاہیے‘ جس کی صورت یہ ہے کہ عالم اسلام کے فاضل علماء کی ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے‘ جو اپنے اسلامی کردار اور زہد و ورع میں بھی ممتاز اور اس لحاظ سے مسلم عوام میں قابل اعتبار گردانے جاتے ہیں اور وہ قرآنی علوم اور احادیث پر بھی گہری نظر کے ساتھ چاروں مذاہب فقہ کی کتابوں پر دسترس رکھتے ہیں۔ ‘‘[1] مولانا آگے چل کر علمی مجلس کے اجتہاد کے طریق کار پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ان متبحر علماء کی کمیٹی میں جدید علوم و فنون یعنی اقتصادیات‘ اجتماعیات‘قانون و تجارت وغیرہ جملہ علوم عصریہ کے ایسے ماہرین شامل کیے جائیں ‘ جو عقیدہ و عمل کے لحاظ سے سچے اور کھرے مسلمان ہوں۔ تعلیم جدید نے ان کی ایمانی بنیادوں کو متزلزل نہ کیا ہو‘ بلکہ وہ عصری مسائل کا ادراک و شعور رکھنے کے ساتھ ان کے شرعی حل کا احساس و جذبہ اور دلی تڑپ بھی رکھتے ہوں تاکہ علماء شریعت جدید عصری معاملات اور فنی(ٹیکنیکل)مسائل میں ان کی رائے اور تفصیلات پر اعتماد کرتے ہوئے ان سے فائدہ اٹھا سکیں اور جدید مسائل کی تہہ تک پہنچنے میں
[1] سہ ماہی منہاج ‘ اجتہاد علماء کی نظر میں(سوالات و جوابات)‘ جنوری ۱۹۸۳ء‘ ص۲۸۵