کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 414
أہل حل و عقد کے أعمال
علمی اور مقتدر دونوں طرح کی مجالس اہل حل و عقد کے اعمال و افعال کا دائرہ کار علیحدہ علیحدہ ہو گا۔ ایک مقتدر مجلس اہل حل و عقد کی ذمہ داریوں کے بارے میں بحث کرتے ہوئے موسوعہ فقہیہ کے مقالہ نگار لکھتے ہیں :
’’ من ذلک:أ۔ تولیۃ الخلیفۃ: وھذا إجماع لا خلاف فیہ لأحد من أھل السنۃ والجماعۃ۔ ب۔ تجدید البیعۃ لمن عھد إلیہ بالإمامۃ عند وفاۃ الإمام۔ ۔ ۔ ج۔ استقدام المعھود إلیہ الغائب عند موت الإمام۔ د۔ تعیین نائب للإمام الذی ولی غائبا إلی أن یقدم۔ ۔ ۔ ھ۔ عزل الإمام عند وجود مایقتضیہ وینظر فی إمامتہ۔ ‘‘[1]
’’اس مجلس کی پہلی ذمہ داری خلیفہ کا تقرر ہے اور اس ذمہ داری کے بارے میں اہل سنت و الجماعہ کا اجماع ہے اوران میں سے کسی کابھی اختلاف نقل نہیں ہواہے۔ دوسری ذمہ داری امام وقت کی وفات کے بعد جس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہو‘ اس سے تجدید بیعت کرنا۔ ۔ ۔ تیسری ذمہ دار امام کی وفات کے وقت جس غائب شخص کو امامت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے‘ اس کو طلب کرنا۔ چوتھی ذمہ داری اس امام کے نائب کا تعین کرنا جو کسی غائب امام کی جگہ حکمران بناہویہاں تک وہ غائب امام منظر پر آ جائے۔ ۔ ۔ پانچویں ذمہ داری امام کو کسی ایسی وجہ سے معزول کرنا جو اس کی معزولی کا تقاضا کرتی ہو اور اس کی امامت کو محل نظر بناتی ہو۔ ‘‘
علماء کا اس مسئلے میں بھی اختلاف ہے کہ امامت کے منعقد ہونے کے لیے کم از کم کتنے اہل حل و عقد کا ہونا لازم ہے۔ اکثریت کی رائے یہی ہے کہ اس کے لیے کوئی خاص عدد متعین نہیں ہے۔ موسوعہ فقہیہ کے مقالہ نگار لکھتے ہیں :
’’ اختلف العلماء فی عدد من تنعقد بھم الإمامۃ من أھل الحل و العقد علی مذاھب شتی فقالت طائفۃ: لا تنعقد إلا بأکثریۃ أھل الحل والعقد من کل بلد‘ لیکون الرضی بہ عاماً‘والتسلیم لإمامتہ إجماعاً‘ وھو ما ذھب إلیہ الحنابلۃ۔ ۔ ۔ وقالت طائفۃ أخری: أقل من تنعقد بہ منھم خمسۃ‘ یجتمعون علی عقدھا‘ أویعقدھا أحدھم برضی الأربعۃ‘ والذی علیہ الحنفیۃ والشافعیۃ أن الإمامۃ تنعقد بتولیۃ جماعۃ من أھل الحل والعقد دون تحدید عدد معین۔ ‘‘[2]
’’علماء کا اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ کتنے اہل حل و عقد ہوں تو امامت منعقد ہو جاتی ہے۔ اس بارے میں کئی ایک مذاہب ہیں۔ علماء کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ ہر شہر کے جمہور اہل حل و عقد کی بیعت سے امامت منعقد ہوتی ہے تاکہ امام وقت کو عامۃ الناس کی رضامندی حاصل ہو اور اس کی امامت پر لوگو ں کا اجماع ہو۔ یہ رائے حنابلہ کی ہے۔ ۔ ۔ علماء کی ایک دوسری جماعت کا کہناہے کہ کم از کم پانچ اہل حل و عقد ہوں تو ان کی بیعت سے امامت منعقد ہو جاتی ہے(پانچ کا عدد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی چھ رکنی کمیٹی سے لیا گیا ہے)یا ان پانچ میں سے کوئی ایک بھی بقیہ چار کی رضامندی سے ایک کی بیعت کر لے(تو پھر بھی امامت منعقد ہو جاتی ہے)۔ حنفیہ اور شافعیہ کا کہنا یہ ہے کہ اہل حل و عقد کی ایک غیر معین جماعت کے کسی کو ذمہ داری سونپ دینے سے امامت منعقد ہوتی ہے۔ ‘‘
اس وقت پاکستان میں دونوں قسم کی مجالس اہل حل و عقد کے لیے دو بہترین پلیٹ فارم موجود ہیں۔ مقتدر مجلس اہل حل و عقد کو قومی اسمبلی اور علمی مجلس اہل حل و عقد کو سینٹ کا نام دیا جا سکتا ہے کیونکہ قومی اسمبلی صدر ‘ وزیر أعظم یا حکمران کے اختیارات‘ ریاست کے انتظام و انصرام اور اندرونی و خارجہ پالیسی متعین کرنے کے لیے ایک مناسب پلیٹ فارم ہے جبکہ سینٹ میں علماء ‘ فقہاء‘ ماہرین فن اور اسکالرز حضرات کو مناسب نمائندگی دیتے ہوئے اسے قانون سازی بذریعہ اجتماعی اجتہاد کا ایک بہترین ادارہ بنایاجاسکتا ہے۔ لیکن اس صورت میں یہ ایک سرکاری علمی مجلس اہل حل و عقد ہو گی اور پارلیمنٹ سے قانون سازی کااختیار لے لیا جائے گا۔
[1] الموسوعۃ الفقھیۃ: ۷؍ ۱۱۶۔ ۱۱۷
[2] أیضاً: ص۱۱۷