کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 413
جماعت بھی آج اجتماعی اجتہاد کے لیے کھڑی ہو‘اس میں یہ دو شرائط پائی جائیں اور اس مجلس کے اراکین کو ان کی فقاہت اور تقوی کی بنیاد پر منتخب کیا جائے۔ ‘‘ مولانا تقی عثمانی حفظہ اللہ نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ ان دو شرائط کے علاوہ مجلس کے اراکین میں اتباع حق اور عدم تعصب کی صفات بھی لازماً ہونی چاہئیں تاکہ یہ مجلس گروہی تعصب ‘مذہبی منافرت اور سیاسی دباؤ سے آزاد ہو اپنی تحقیقی آراء پیش کرے۔ وہ فرماتے ہیں : ’’ویجب أیضا أن تکون ھذہ الجماعۃ حرۃ فی اتخاذ قراراتھا ولا تتأثر بضغوط سیاسیۃ من قبل الحکومۃ أو الأحزاب السیاسیۃ وغیرھا وأن یشارک کل فی المشاورۃ بذھن متفتح لکل رأی مستند إلی دلیل دون أن یتعصب لرأی مخصوص۔ ‘‘[1] ’’یہ بھی ضروری ہے کہ یہ مجلس اپنی قراردادوں کے پاس کرنے میں آزاد ہواور حکومت یادوسری سیاسی پارٹیوں وغیرہ کی طرف سے سیاسی دباؤ سے متاثر نہ ہواور اسی طرح اس مجلس کاہر رکن ہر اس رائے کے لیے کھلے ذہن کے ساتھ مشاورت میں شریک ہو جو کسی دلیل کی بنیا دپر قائم ہو اور کسی مخصوص رائے کے حق میں متعصب نہ ہو۔ ‘‘ شیخ عبد الجبار عبد الستار نے شرعی علوم کی واقفیت کے ساتھ ساتھ فقہ الواقع‘ عرف اور أحوال و ظروف کے علم کو بھی بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ وہ اجتماعی فتوی جاری کرنے والی مجلس کے شرکاء کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’ العلماء العاملون ممن تتوفر فیھم ثلاثۃ شروط: فقہ النص‘ فقہ الواقع‘ العدالۃ‘ الباحثون المجیدون من طلبۃ العلوم الشرعیۃ الذین یجمعون بین علو الھمۃ والتجرد فی العمل للدین ویقدمون الدراسات الرصینۃ فی المسائل الجزئیۃ التی یراد بحثھا وعرضھا علی العلماء العاملین لیصدروا فتواھم فی ضوئھا‘ خبراء ومستشارون فی مختلف شؤون الحیاۃ لمشورتھم والتباحث معھم فی تفاصیل الأمور التی یراد الإفتاء بھا۔ ھؤلاء الخبراء رأیھم استشاری یوضحون غوامض وکیفیات الأمور للعلماء العاملین لیفتوا بھا علی بصیرۃ۔ ‘‘[2] ’’وہ علماء کہ جن میں تین شرائط پائی جاتی ہوں۔ فقہ النص کا علم‘ فقہ الواقع کا علم اور عدالت۔ دوسرا علوم شرعیہ کے طلباء میں سے وہ عمدہ محققین جو اپنی عالی ہمت اور دین کے لیے اپنے فارغ اوقات کے سبب جزوی مسائل میں مضبوط تحقیقات پیش کریں تاکہ ان تحقیقات کو باعمل علماء کے سامنے پیش کیاجائے اور وہ ان کی روشنی میں اپنا اجتماعی فتوی جاری فرمائیں۔ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین فن اور مشیروں کو بھی اس مجلس کی رکنیت دی جائے تاکہ ان سے متعلقہ امور میں کوئی فتوی جاری کرنے کے لیے اُن سے اِن مسائل کے بارے میں تفصیلی مباحثہ اور مشورہ کیا جاسکے۔ ان ماہرین کی رائے کی حیثیت ایک مشورے کی سی ہو گی اور یہ حضرات اپنے سے متعلقہ معاملات کی پیچیدگیاں اور مختلف کیفیات اجتہاد کرنے والے علماء کے سامنے واضح کریں گے تا کہ وہ ان مسائل میں علی وجہ البصیرۃ فتوی جاری کریں۔ ‘‘ ڈاکٹر رمضان البوطی حفظہ اللہ کے بقول حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت ’اہل حل و عقد‘ کی بیعت کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی اور عامۃ الناس کی بیعت ان کے بعد تھی۔ پس کسی اسلامی ریاست میں صدر یا وزیر أعظم کے انتخاب کے لیے ایسے اراکین پر مشتمل مجلس اہل حل و عقد ہونی چاہیے جو عدالت اور بنیادی علم کی صفات کے علاوہ معاشرے میں کسی مقام و مرتبہ کے حامل ہوں کیونکہ امامت ‘ خلافت یا حکومت کا اصل مقصود مسلمانوں کے اجتماعی سیاسی نظم کا قیام ہے نہ کہ أحکام شرعیہ کا استنباط۔
[1] الاجتھاد الجماعی: ص۱۳ [2] Sheikh Abdul Sattar Abdul Jabbar, Muas'sasah Alifta Aljimae, Retrieved August 29 ,2009, from http://www.majlis-iq.org/Araa.htm