کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 412
’’پہلی شرط تو ایسی عدالت ہے جو ان تمام شرائط کو جامع ہو جن کا پایا جاناشہادت کے باب میں لازم ہے جیساکہ اسلام‘ عقل‘ بلوغت‘ عدم فسق اور کمال درجے میں اعلی اخلاق و عادات کا حصول ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اس کے پاس اتنا علم ہو جس کے ذریعے اس کے لیے یہ معلوم کرنا آسان ہوکہ کون شخص امامت کا زیادہ مستحق ہے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ اس میں اس قدر حکمت اور سمجھداری ہو جس کی بدولت وہ یہ فیصلہ کر سکتا ہو کہ کون شخص امامت کے لیے زیادہ مناسب ہے۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ اس کامعاشرے میں رعب و دبدبہ ہو اور لوگ اس کی اتباع کرتے ہوں۔ ۔ ۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ وہ اہل اسلام کا خیر خواہ اور ان کے حق میں مصلح ہو۔ ‘‘ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ نے ان صفات کا خلاصہ درج ذیل عبارت میں جمع کر دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں : ’’ وإما ببیعۃ أھل الحل والعقد: وھم من اجتمع فیھم ثلاثۃ أمور: العلم بشروط الإمام‘ والعدالۃ‘ والرأی۔ ‘‘[1] ’’اسی طرح امامت‘ اہل حل و عقد کی بیعت سے بھی منعقد ہوجاتی ہے اور اہل حل و عقد سے مراد وہ لوگ ہیں جن میں یہ تین صفات ہوں :امام کی شروط کا علم‘ عدالت اور سمجھداری۔ ‘‘ یہ شرائط تو ان اہل حل و عقد کے لیے ہیں جوامام کا انتخاب کرتے ہیں۔ اگر اہل حل و عقد کی کوئی ایسی مجلس ہوجو اجتہاد کافریضہ سرانجام دے رہی ہو تو اس میں عدالت کے علاوہ بنیادی ترین شرط ایسا علم ہوگا جو اس کو درجہ اجتہاد پر فائز کرتا ہو۔ یعنی اس میں صفت عدالت کے ساتھ ساتھ ایک مجتہد کی بھی شرائط پائی جا رہی ہوں۔ امام رازی رحمہ اللہ اجماع کی تعریف بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’ ونعنی بأھل الحل والعقد المجتھدین فی الأحکام الشرعیۃ۔ ‘‘[2] ’’اہل حل و عقد سے ہماری مرادأحکام شرعیہ میں اجتہاد کرنے والے ہیں۔ ‘‘ مجتہد کی بنیادی شرائط کے بارے میں ہم اس مقالے کے پہلے باب میں تفصیل سے بحث کر چکے ہیں۔ اسی طرح مولانا تقی عثمانی حفظہ اللہ علمی مجلس اہل حل و عقد کے اراکین کی صفات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’وإنما الطریق السلیم للاجتھاد الجماعی الیوم ھو نفس الطریق الذی أرشد إلیہ النبی الکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی حدیث سیدنا علی بن أبی طالب رضی اللّٰہ عنہ: شاوروا الفقھاء والعابدین ولا تمضوا فیہ رأی خاصۃ والذی عمل بہ الخلفاء الراشدون والأئمۃ المتبوعون کما أسلفنا۔ وقد أوضح النبی الکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی ھذا الحدیث أنی یجب أ ن یتوفر فی مثل ھذا الاجتھاد شرطان:۱۔ أن یکون من قبل الفقھاء وھم الذین فرغوا أنفسھم للتفقہ فی الدین۔ ۔ ۔ ۲۔ أن یکون من العابدین المتقین۔ ۔ ۔ وعلی ھذا الأساس یجب أن تکون الجماعۃ التی تقوم بالاجتھاد الجماعی فی أیامنا یتوفر فیھا ھذان الشرطان وأن ینتخب أعضاؤھا علی أساس تفقھم وتقواھم۔ ‘‘[3] ’’آج کل کے زمانے میں اجتہاد کا صحیح طریقہ وہی ہے جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں رہنمائی فرمائی ہے:تم فقہاء اور عابدین سے مشورہ کرو اورکسی انفرادی رائے کے مطابق فیصلہ نہ کرو۔ اجتہاد کایہی طریقہ ہے کہ جس پر خلفائے راشدین اور أئمہ سلف کے دور میں بھی عمل ہوا ہے جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں اس قسم کے اجتماعی اجتہاد کے لیے دو شرائط کا تذکرہ کیا ہے۔ پہلی شرط تو یہ ہے کہ یہ اجتہاد فقہاء کی طرف سے ہو اور یہ وہ لوگ ہوں جنہوں نے اپنے آپ کوتفقہ فی الدینکے لیے وقف کر دیا ہو۔ ۔ ۔ اور دوسری شرط یہ ہے کہ وہ فقہاء عبادت گزار اور متقی ہوں۔ ۔ ۔ پس اس بنیاد پر لازم ہے کہ جو
[1] الفقہ الإسلامی وأدلتہ: ۸؍۲۹۱ [2] المحصول: ۴؍۲۱ [3] الاجتھاد الجماعی: ص۱۱‘ ۱۲۔ ۱۳