کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 405
مجلس شوری ہی کرے گی الا یہ کہ اس کا فیصلہ قرآن وسنت اور اجماع امت کے خلاف ہواس صورت میں اس کے فیصلے کو ویٹو کرنا واجب ہے۔ اگر سربراہ ریاست یا شوری کے درمیان کسی معاملے میں نصوص اور اجماع کے خلاف ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف رائے پیدا ہوجائے تو وہ معاملہ فقہاء عابدین پر مشتمل کسی عدالت کے سامنے پیش کرنا ہو گا۔ ‘‘[1] ہمارے خیال میں اس فیصلے میں بنیادی اہمیت اس مسئلے کی ہے جو زیر بحث ہے۔ اگر تو مسئلہ زیر بحث عمومی و اجتماعی نوعیت کا ہو مثلاً فلاں ملک سے جنگ کرنی ہے یا نہیں توظاہری بات ہے یہ ساری قوم کا مسئلہ ہے۔ اس میں فرد واحد ‘ چاہے وہ حکمران ہی کیوں نہ ہو‘ کی رائے پر جماعت یعنی شوری کی رائے کو ترجیح حاصل ہو گی۔ اور اگر معاملہ انتظامی أمور سے متعلق ہو مثلاً ٹریفک کے قوانین تو حکمران کی رائے کو شوری کی رائے پر فوقیت حاصل ہو گی جیسا کہ خلفائے راشدین کے دور سے اس کی کئی ایک مثالیں ملتی ہیں۔ اور اگرکسی فقہی معاملہ میں اختلاف ہو جائے تو اس بارے میں مولانا گوہر رحمان رحمہم اللہ کی تجویز سے ہمیں اتفا ق ہے۔ ہمارے خیال میں قرآن وسنت کی جتنی بھی نصوص حکمران‘ أمیر یا خلیفہ وقت کی رائے کو شوری کی رائے پر ترجیح کے ضمن میں بیان کی جاتی ہیں ‘ ان میں أمر واقعہ یا فقہ الواقع تبدیل ہو چکا ہے۔ یعنی جن خصوصیات کے حامل حکمرانوں اور أمراء کے بارے وہ نصوص وارد ہوئی ہیں ‘ وہ خصوصیات آج کسی حکمران یا أمیر میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔ آج ہمارے پاس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ] جیسی متفق‘ معتبراور مستند شخصیات موجود نہیں ہیں۔ آج اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا حکمران یا أمیر موجود ہو تو اس کی رائے کو شوری کی رائے پر ترجیح دینے میں تو کسی عالم کو اختلاف نہ ہو گا لیکن ایسی شخصیات یا أمراء آج کہاں سے آئیں گے؟۔ اس مسئلے میں علماء کے اختلاف کا ایک پہلو تو شرعی نصوص ہیں اور دوسرا پہلو فقہ الواقع کی تبدیلی بھی ہے اور یہ قاعدہ کلیہ مسلم ہے کہ فقہ الواقع کی تبدیلی سے أمر شرعی(کا اطلاق )بھی بدل جاتا ہے۔ ٭٭٭
[1] اسلامی سیاست : ص۲۹۸۔ ۲۹۹