کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 404
زیدان حفظہ اللہ وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ [1] دوسری رائے قتادہ‘ ربیع اور ابن اسحاق رحمہم اللہ کی ہے۔ اس رائے کی نسبت امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف بھی کی گئی ہے۔ [2]ڈاکٹرمحمدعبد القادر أبو فارس حفظہ اللہ نے یہ وضاحت تفصیل سے بیان فرمائی ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے جو مشاورت کو مستحب قرار دیا ہے تو ان کا یہ قول قضاۃ کے بارے میں تومروی ہے لیکن حکمران کے بارے میں نہیں ہے۔ [3] دوسرا نکتہ‘ جس میں علماء کے مابین اختلاف ہے‘ وہ یہ ہے کہ اگر کسی مسئلے میں حاکم وقت مجلس شوری سے مشاورت کرے اور دونوں کی رائے میں اختلاف ہو جائے تو اس صورت میں کس کی رائے پر عمل ہو گا۔ جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ اختلاف کی صورت میں حکمران شوری کی رائے کا پابند ہو گا جبکہ علماء کے ایک دوسرے گروہ کا کہنا یہ ہے کہ آخری فیصلے کا اختیار حکمران کا حق ہے۔ ڈاکٹر عبد القادرأبو الفارس حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ فإذا استشار الحاکم الأمۃ امتثالاً لأمر اللّٰہ الذی أوجب علیہ أن یستشیر‘ فرأی أھل الشوری رأیاً یخالف رأی الحاکم فماذا یفعل؟ ھل یصیر علی رأیہ وینفذہ علی الرغم من مخالفۃ أھل الشوری لہ أومعظمھم؟ ھل یتنازل عن رأیہ ویأخذ برأی أھل الشوری الذی یخالف رأیہ؟ فإن أخذ بالأمر الأول فالشوری تکون فی حقہ معلمۃ وإن أخذ بالأمر الثانی فالشوری تکون فی حقہ ملزمۃ۔ ‘‘[4] ’’پس جب حاکم اللہ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے کہ جس میں اس پر مشورہ کرنے کو واجب قرار دیاگیا ہے‘ کسی مسئلے میں امت سے مشورہ کرے اور اہل شوری کی رائے حاکم کی رائے سے مختلف ہوتو حاکم کیا کرے گا؟کیاوہ اپنی رائے پر قائم رہتے ہوئے شوری یا اس کی اکثریت کی مخالفت کے باوجود بھی اپنی رائے کو نافذ کرے گا؟یا وہ اپنی رائے سے نیچے اترے گا اور اپنی رائے کے مخالف شوری کی رائے کو اختیار کر لے گا؟پہلی صورت میں شوری کی حیثیت حکمران کے حق میں ایک خبر و اطلاع دینے والے ادارے کی سی ہو گی اور دوسری صورت میں شوری کی حیثیت حکمران کے حق میں اس پر کوئی رائے لازم کرنے والی جماعت کی سی ہوگی۔ ‘‘ پہلی رائے امام أبوبکر جصاص‘امام ابن عطیہ‘امام ابن تیمیہ‘ امام قرطبی‘شیخ أحمد حسن البناء‘ علامہ طاہر بن عاشور‘ استاذ أحمد محمد شاکر رحمہم اللہ، أستاذ عبد الکریم زیدان ‘أستاذ حسن ہویدی اور ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطیjکی ہے۔ [5]جبکہ جمہور کی رائے دوسری ہے۔ دوسری رائے کو اختیارکرنے والے علماء میں استاذ أبو الأعلی مودودی‘ شیخ شلتوت‘استاذ عبد الکریم زیدان کی آخری رائے‘ استاذ عبد القادر عودۃ‘ استاذ محمد عبدہ‘أستاذ محمد عبد الرشید رضا‘ ڈاکٹر محمد سلیم العوا‘ استاذ سید قطب‘ استاذ شیخ أحمد مصطفی المراغی‘ ڈاکٹرأحمدعبد المنعم البھی‘ شیخ محمد الغزالی‘ استاذ محمد أسد‘ أستاذ محمود المرداوی‘ استاذ طہ سرور‘ أستاذ أحمدشلبی‘ ڈاکٹر مصطفی أبو زید رحمہم اللہ ‘ استاذ فتحیعثمان‘ ڈاکٹر زکریا عبد المنعم الخطیب‘ شیخ عبد الرحمن عبد الخالق‘ ڈاکٹر محمد عبد القادر أبو فارس‘ استاذ محمد محمود حجازی‘ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین الریس‘أستاذ اسماعیل بدوی‘استاذ یحی اسماعیل‘ ڈاکٹر محمد سعادجلال‘ شیخ مصطفی عاصی اور ڈاکٹر عبد الحمید الأنصاری حفظہم اللہ وغیرہ شامل ہیں۔ [6] مولانا گوہر رحمان حفظہ اللہ کا کہنایہ ہے کہ اگر کسی مسئلے میں حاکم وقت اور شوری کے مابین اختلاف ہو جائے تو اس مسئلے کو فقہاء پر مشتمل کسی عدالت میں پیش کیا جائے اور فقہاء جس کے حق میں رائے دے دیں ‘ اس کے فیصلے کو نافذ کر دیا جائے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’مشورہ اگرچہ ہر شہری دے سکتا ہے اورتنقید و محاسبہ بھی کر سکتاہے لیکن امور مملکت کے فیصلے قوم کے معتمد اور مومنین عرفاء و نقباء پر مشتمل
[1] الشوری فی الإسلام: ۲؍ ۷۳۰۔ ۷۳۸ [2] أیضاً: ص۷۵۹ [3] أیضاً: ص۷۶۰۔ ۷۶۱ [4] أیضاً: ص۷۷۰ [5] أیضاً: ص۷۲۱۔ ۷۲۲ [6] أیضاً: ص۸۱۵۔ ۸۱۷