کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 402
خلاف ہو تو عدالت میں اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ انتخاب کا طریقہ شوری کی ترکیب کا دوسرا طریقہ انتخاب کا طریقہ ہے۔ یہ طریقہ جدید مغربی سیاسی نظام’جمہوریت‘ کی پیداوارہے۔ دنیا کے اکثر و بیشتر مسلمان ممالک میں اس وقت اسی طریقہ کارپر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ شوری کے اراکین کی تعیین کے لیے یہ طریقہ کار بھی بہتر ہے اگراس میں کچھ مثبت تبدیلیاں کر لی جائیں۔ مروجہ انتخاب کے طریقہ کار میں پارٹی سسٹم‘ وڈیرہ شاہی‘ کرپشن‘ جبر و تشدد اور روپے پیسے کے ضیاع جیسی خرابیوں نے بہت نقائص پیدا کر دیے ہیں۔ شوری کے انتخاب کے اس طریقہ کار میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ایک بڑی تبدیلی تو یہ ہونی چاہیے کہ پارٹی سسٹم ختم کر دیا جائے۔ ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت میں منتخب ہو کر شوری میں آئے۔ دوسری اہم شرط ‘ جس کو لاگو کرنا چاہیے‘ وہ یہ ہے کہ شوری کے انتخاب میں وہی شخص اس کا انتخاب لڑنے کا اہل قرار پائے جو رکن شوری کی بنیادی خصوصیات مثلاً علم و عدل وغیرہ سے متصف ہو۔ پاکستان کے ۷۳ء کے آئین میں پہلے ہی سے شوری کا رکن بننے کے لیے یہ شرائط متعین ہیں ‘ لیکن اصل مسئلہ ان شرائط کو قابل عمل اورلاگو کرنے کا ہے۔ ۷۳ء کے پاکستانی آئین میں مجلس شوری یا قومی اسمبلی کے رکن کے لیے درج ذیل چار شرائط بیان کی گئی ہیں : ’’۱۔ اس کا کردار اچھا ہو اور وہ عام طور پر اسلامی قوانین کی خلاف ورزی نہ کرتا ہو۔ ۲۔ اسلام کا مناسب حد تک علم رکھتا ہو اور اسلامی فرائض کی بجا آوری کرتا ہو اور کبیرہ گناہوں سے پرہیز کرتا ہو۔ ۳۔ دیانتدار‘ سمجھدار اور امین ہو۔ ۳۔ کسی اخلاقی جرم کی پاداش میں سزا نہ ہوئی ہو اور نہ ہی جھوٹی گواہی کا مرتکب پایا گیا ہو۔ ‘‘[1] یہاں پر ایک اہم صفت یعنی صفت علم بیان نہیں ہوئی ہے کیونکہ جب مقتدرمجلس شوری کا وظیفہ نہ صرف امام وقت کا انتخاب ٹھہرا بلکہ اس کا کام ریاست کے لیے قانون سازی بذریعہ اجتماعی اجتہاد بھی ہے تو پھر اس کے اراکین میں رسوخ فی العلم کی صفت لازماً ہونی چاہیے۔ تیسری بات یہ ہے کہ شوری کے انتخاب میں ہر قسم کی اشتہاربازی اور سیاسی مہم چلانے پر پابندی لگا دی جائے۔ کسی خاص حلقے میں شوری کا رکن بننے کے لیے اپنے آپ کو بطور ایک ممبر پیش کرنے والے أصحاب علم و فضل کی ایک فہرست تیار کر لی جائے اور پھر حکومتی سطح پرمیڈیا کے ذریعے ان کے ناموں اور علامتی نشانات کا اعلان کر دیاجائے اور مقررہ تاریخ پر انتخاب ہوجائیں۔ جناب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے بقول شوری کے انتخاب کے لیے دونوں طریقوں کو استعمال کرناچاہیے۔ اور دو مختلف طریقوں سے دو شوری بنائی جائیں۔ انتخاب کے ذریعے منتخب ہونے والی شوری کو وہ ’شورائے عام‘ اور تعیین کے طریقے سے متعین ہونے والی شوری کو ’شورائے خاص‘ کا نام دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک شوری عام اور شوری خاص کا دائرہ اجتہادبھی مختلف ہوگا۔ وہ فرماتے ہیں : ’’اس سلسلے میں میرے غور و خوض اور فکر و تأمل کانتیجہ ہے کہ عصر حاضر میں اسلامی ریاست کے لیے’’اجتماعی اجتہاد‘‘ یعنی اجتہاد الجماعۃ ہی قانون کی حیثیت سے قابل قبول ہونا چاہیے کیوں کہ امت مسلمہ میں گروہی ‘ مسلکی اور طبقاتی تقسیم کے باعث واقعتاً’’اجتہاد الفرد‘‘ یعنی انفرادی اجتہاد آج ریاستی مؤثر کردار ادا نہیں کر سکتا۔ اجتماعی زندگی میں حالات و مسائل کے تنوعات اور پیچیدگیاں بھی اس امر کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس اجتہادکو’’ ریاستی اجماع‘‘ کا درجہ حاصل ہو گا۔ اس کا طریقہ یہ ہوناچاہیے: ۱۔ ہر اسلامی ریاست اپنے مخصوص حالات و مقتضیات کے مطابق جداگانہ طور پر اجتہاد کی اجماعی صورت اپنائے۔ ۲۔ ہر ریاست ایک ایسا قومی ادارہ تشکیل کرے‘ جو دو ایوانوں پر مشتمل ہو‘ ان سے ایک ’شورائے عام‘ اور دوسرا ’شورائے خاص‘ کہلائے۔ شورائے خاص صرف اکابر علماء و فقہاء اور مختلف عصری علوم و فنون اور معاملات کے ماہرین اور محققین و متخصصین پر مشتمل ہو۔ ان میں سے بعض تناسب آبادی کے اعتبار سے منتخب کیے جائیں اور بعض معینہ کوٹے کے مطابق نامزد ہوں۔ جب کہ شورائے عام پورے ملک سے منتخب نمائندوں پر مشتمل ہو۔ ان نمائندوں کے انتخاب کے لیے کم ازکم معیار تعلیم اور
[1] آئین پاکستان : ص۱۴۸