کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 400
راست منتخب کر لیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سعودی عرب میں اور بعض دوسرے اسلامی ممالک میں اس طریقے کاتجربہ کیا گیا ہے۔ سعودی عرب میں مجلس شوری کی ابتداء شاہ عبد العزیز کے دور میں ۱۹۲۶ء میں ہی ہو گئی تھی۔ جبکہ شاہ فہد بن عبد العزیز نے ۱۹۹۱ء میں اس مجلس کو نئی بنیادوں پر استوار کیااور مختلف میدانوں سے تعلق رکھنے والے۶۰ کے قریب اہل حل و عقد کو شوری کی رکنیت عطاکی۔ بعد میں اس مجلس کی تعداد ۹۰ اور بالآخر ۱۲۰ تک پہنچ گئی ہے۔ اس شوری کے ایک صدر اور نائب صدر بھی ہیں۔ سعودی مجلس شوری کے سابق نائب صدر ڈاکٹر عبد اللہ بن عمر نصیف حفظہ اللہ سعودی مجلس شوری کے طریق تعیین کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ ماینتقد بہ بعض الناس المجالس الشوریۃ(البرلمانات)بأن تشکیلھا یتم بالتعیین بدلاً من الانتخاب‘ فھو انتقاد فی غیر محلہ۔ ۔ ۔ وأود أن أقول فی ھذا الصدد إن الشوری فی الإسلام ھی وسیلۃ ولیست غایۃ فولی الأمر یبحث عن الرأی الصائب من قبل أھل الحل والعقد والذین لا ینتمون لأحزاب سیاسیۃ أو غیرھا‘ وإنما ولاؤھم للإسلام و تطبیق شرع اللّٰہ والحکم بہ والأحتکام إلیہ۔ فلھذا التعیین والانتخاب سیان؟ لأن الھدف ھو البحث عن اشخاص بعیدین عن الشبھۃ وعن مواطن الخلل والزلل فلذلک فإن التعیین یحقق ھذا الھدف۔ ‘‘[1] ’’بعض لوگ مجالس شوری پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ ان کے اراکین کا چناؤ انتخاب کی بجائے تعیین کے ذریعے ہوتا ہے‘ ہمارے خیال میں یہ تنقید محل نظر ہے۔ ۔ ۔ میں اس ضمن میں یہ بات کرنا چاہوں گا کہ اسلام میں شوری کی حیثیت ایک ذریعے کی ہے ‘نہ کہ بذاتہ مقصود ہے۔ پس حاکم وقت اہل حل و عقد اور ان لوگوں کی مدد سے‘ جو اپنی نسبت سیاسی جماعتوں کی طرف نہیں کرتے‘صحیح رائے کی تلاش کرتے ہیں۔ أصحاب شوری کی وفاداری اسلام‘ اللہ کے قانون کی تطبیق‘ اس کے مطابق فیصلے کرنا اور اس سے فیصلے چاہنے میں ہوتی ہے۔ پس اس وجہ سے تعیین کے ذریعے انتخاب کا طریقہ درست ہے کیونکہ اصل مقصود ان اشخاص کی تلاش ہے جو شبہات‘ لغزشوں اور کوتاہیوں سے پاک ہوں اور تعیین اس ہدف کو پورا کرتی ہے۔ ‘‘ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تعیین کے طریقے میں باصلاحیت افرا د و شوری میں لانے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں لیکن اگر حکمران صالح نہ ہو تو عموماً یہ طریقہ کار بھی حکمرانوں کی سیاسی حکمتی عملی کی نذر ہو جاتاہے جیسا کہ صدر ضیاء الحق صاحب نے جب مارشل لاء نافذ کیا اورعوامی ریفرنڈم کا ڈرامہ رچا کر ریاست پاکستان کے صدر بن گئے تو انہوں نے اپنے خلاف مطلق العنان حکمران کا طعنہ ختم کرنے کے لیے ایک فرضی مجلس شوری بنا لی اوراس میں ایک دو کو چھوڑ کربقیہ تقریباً تمام اراکین ایسے تھے جو اس قابل نہ تھے کہ کسی اسلامی ریاست کی مجلس شوری کے رکن مقرر کیے جاتے۔ ذیل میں ہم جناب ضیاء الحق صاحب کی منتخب کردہ مجلس شوری کاایک مختصر جائزہ پیش کر رہے ہیں : خواجہ محمد صفدر( صدر مجلس شوری) مسلم لیگ سے وابستہ سیاست دان مفتی محمد حسین نعیمی بریلوی عالم دین اور اسکالر علامہ عبد المصطفی الأزہری بریلوی عالم دین مولانا محمد شفیع اکاڑوی بریلوی خطیب علامہ سید محمد رضی شیعہ عالم دین مطلوب حسین سید قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری زین نورانی سیاسی شخصیت ظہور الحسن بھوپالی صحافی و سیاست دان‘ سابق رکن سندھ اسمبلی
[1] Dr. Abdullah bin Umer Nseef, Majal o Majlis e Shura, Retrieved August 29, 2009, from http://www.aawsat.com/details.asp?section=17&article=60680&issueno=8350