کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 398
جن میں کوئی واضح الدلالۃ شرعی نص واردنہ ہوئی ہو۔ ‘‘
اجتماعی اجتہاد کی تاریخ کے ذیل میں ہم کئی ایک ایسی مثالیں بیان کر چکے ہیں کہ جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شوری دینی اور دنیوی دونوں قسم کے امور میں منعقد ہوتی تھی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے طریقہ کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا اوریہ ایک شرعی مسئلہ تھا۔ دینی امور میں ان مسائل میں شوری نہیں ہو سکتی کہ جن میں کوئی واضح قرآن کی آیت یا حدیث یا مستنداجماع موجود ہو۔ ڈاکٹر محمد رمضان البوطی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ أن الشوری لا مکان لھا فی أمر ثبت حکمہ بنص من القرآن‘ أو السنۃ الصحیحۃ‘ وکان ذا دلالۃ واضحۃ‘ أو استقر فی شانہ الإجماع۔ ‘‘[1]
’’ان مسائل میں شوری کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ جن کا حکم قرآن کی کسی نص یا صحیح سنت سے ثابت ہو اور وہ نص واضح دلالت والی ہو یا اس مسئلے میں کوئی اجماع منعقد ہو چکا ہو۔ ‘‘
شیخ عبد الرحمن عبد الخالق حفظہ اللہ اس بحث کو مزید اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مختلف قسم کی شوری کا دائرہ کار بھی مختلف ہو گا۔ پس اس أمر کافیصلہ کہ ایک شوری کا دائرہ کار کیا ہو گا‘ اس شوری کے درجے ‘اراکین کی صفات اور زیر بحث معاملے کے اعتبار سے ہوگا۔ وہ فرماتے ہیں :
’’۱۔ أن أھل الشوری ھم عموم الناس إذا کان الأمر سیتعلق بعمومھم کاختیار الخلیفۃ والحاکم وإعلان الحرب فھذہ الأمور العامۃ لا بد فیھا من رأی عام وموافقۃ عامۃ۔ ۲۔ وأما الأمور الخاصۃ فیستشار فیھا أھل ھذہ الخصوصیۃ وأھل العلم والدرایۃ بھا۔ ففی تنفیذ الأعمال العسکریۃ یستشار أھل الرأی فی ذلک وفی الأعمال الصناعیۃ أھل الخبرۃ فیھا وھکذا۔ ۳۔ وفی سیاسۃ الأمۃ وإدارۃ شؤونھا بوجہ عام فمجلس شوری یختار من أھل العلم والرأی من المسلمین بشروطہ السابقۃ بعلم ورضی الناس عنھم۔ ‘‘[2]
’’۱۔ اگر تو عمومی امور کا معاملہ ہے جوعام لوگوں سے متعلق ہے جیساکہ کسی خلیفہ یا حاکم کی تقرری یا اعلان جنگ وغیرہ تو اس مسئلے میں اہل شوری عامۃ الناس ہوں گے کیونکہ ان مسائل میں عامۃ الناس کی رائے اور ان کی موافقت ایک لازمی و لابدی أمر ہے۔ ۲۔ اور جہاں تک خاص أمور کا تعلق ہے توان میں ان امور کے ماہرین‘ اہل علم اور سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں سے مشورہ کیا جائے گا۔ مثال کے طور پرعسکری امور میں ان امور کے ماہرین اور صنعتی امور میں اس میدان کے ماہرین سے مشورہ کیا جائے گا۔ ۳۔ عمومی پہلو سے امت کی سیاست اور اس کے مختلف امور کے انتظام کے لیے ایک مجلس شوری ہوگی جو مسلمانوں کے ان اہل علم اور أصحاب رائے پر مشتمل ہو گی جن کی شرائط پہلے گزر چکی ہیں یعنی وہ أصحاب علم و فضل ہوں اورشوری کا رکن ہونے میں انہیں لوگوں کی رضا اوراعتماد حاصل ہو۔ ‘‘
مولانا مودودی رحمہ اللہ ایک اسلامی ریاست میں شوری کے دائرہ کار کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اسلام میں دائرہ عبادات کے اندر قانون سازی کی قطعا کوئی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ عبادات کے علاوہ معاملات کے اس دائرے میں قانون سازی کی گنجائش موجود ہے جس میں کتاب و سنت خاموش ہے۔ ‘‘[3]
معاملات میں قانون سازی اور مشاورت کے دائرہ کارکو مزیدبیان کرتے ہوئے مولانا مودودی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’معاملات میں قانون سازی کے چار شعبے ہیں :۔ الف۔ تعبیر‘ یعنی جن معاملات میں شارع نے امر یا نہی کی تصریح کی ہے ان کے بارے میں نص کے معنی یا ان کا منشا متعین کرنا۔ ب۔ قیاس‘ یعنی جن معاملات میں شارع کا کوئی براہ راست حکم نہیں ہے‘ مگر جن سے ملتے جلتے معاملات میں حکم موجود ہے‘ ان میں علت حکم مشخص کر کے اس حکم کو اس بنیاردپر جاری کرناکہ یہاں بھی وہی علت پائی جاتی ہے جس کی
[1] الشوری فی الإسلام: ۲؍ ۴۹۸
[2] الشوری فی ظل نظام الحکم الإسلامی: ص۹۱۔ ۹۲
[3] اسلامی ریاست : ص۴۵۴