کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 393
چار ایسی ہیں کہ جن کے شورائی فیصلوں پر عمل درآمد لزوم کے درجے میں شامل نہیں ہے۔ ڈاکٹر توفیق الشاوی حفظہ اللہ ان اقسام کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’۱۔ طلب الفرد مشورۃ غیرہ للاستنارۃ بھا فی أمر من أمورہ الشخصیۃ أو الخاصۃ‘ وھذہ ھی الاستشارۃ‘ أو المشورۃ الاختیاریۃ۔ ۲۔ طلب ھیئۃ أو شخص یتولی إحدی السلطات أو الولایات لرأی الخبراء والمتخصصین؛ لیستعین بہ فی اتخاذ قرارہ فی أمر یختص بالتصرف فیہ طبقا للدستور أو الشریعۃ‘ وھذہ استشارۃ أیضا‘ ینتج عنھا مشورۃ اختیاریۃ۔ ۳۔ طلب القاضی من العلماء أو المجتھدین رأیھم فی حکم الشرع لیستنیر بہ قبل أن یصدر حکمہ فی حدود اختصاصہ و ولایتہ‘ وھذہ استشارۃ أو مشورۃ علمیۃ أو فتوی فقھیۃ۔ ۴۔ الفتوی بشأن حکم شرعی‘ المقدمۃ لفرد من الأفراد أو ھیئۃ عامۃ سواء أطلبت ذلک أم لم تطلبہ‘ و ھذہ مشورۃ أو فتوی فقھیۃ۔ ‘‘[1]
’’۱۔ کسی شخص کا اپنے علاوہ کسی دوسرے سے مشورہ طلب کرنا تاکہ وہ اس مشورے کے ذریعے اپنے ذاتی معاملات میں رہنمائی لے سکے۔ یہ مشورہ ‘اختیاری مشورہ کہلائے گا۔ ۲۔ کسی ادارے یا شخص‘ جو اختیار یا اقتدار کا مالک ہو‘ کا ماہرین اورمتخصصین سے رائے لیناتاکہ وہ کسی مخصوص معاملے میں دستور یا شریعت کے موافق تصرف کے لیے رائے کے ذریعے اپنی قرارداد پاس کرنے میں مدد حاصل کر سکے۔ یہ مشورہ بھی اپنے نتیجے کے اعتبار سے اختیاری مشورہ ہی ہے۔ ۳۔ قاضی کا علماء یا مجتہدین سے کسی شرعی حکم کے بارے میں رائے طلب کرناتاکہ وہ اپنی خاص حدود اور اختیارات کے دائرے میں کوئی حکم جاری کرنے سے پہلے اس مشورے سے رہنمائی حاصل کر سکے۔ یہ مشورہ بھی ایک علمی مشورہ یا فقہی فتوی ہے۔ ۴۔ کسی مسئلے کے شرعی حکم کے بارے کسی فرد یا ادارے کا فتوی جاری کرنا‘ چاہے اس سے فتوی کے بار ے میں مشورہ طلب کیا گیا ہو یا نہ ہو۔ یہ بھی فقہی فتوی یا مجرد ایک مشورہ ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر توفیق الشاوی حفظہ اللہ نے شوری کی تین قسمیں ایسی گنوائی ہیں کہ جن کے فیصلے لازماً لاگو و نافذ ہوتے ہیں۔ وہ ان اقسام کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’۱۔ تشاور الأمۃ أو الجماعۃ أو من یمثلونھا من أھل الحل و العقد بشأن قرار سیاسی أو اجتماعی۔ ۔ إلخ‘ مثل اختیار رئیس أو ولی الأمر أو أی شأن آخر ھام من الشؤون العامۃ وصدور قرار بالإجماع أو الأغلبیۃ منھم‘ فقرارھم فی ھذہ الحالۃ من قرارات الشوری الجماعیۃ الملزمۃ۔ ۲۔ تشاور ممثلی الأمۃ ‘ أھل الحل والعقد‘ المفوضین من الأمۃ لوضع نظامھا الدستوری أو قوانینھا الأساسیۃ‘ أو تحدید شروط البیعۃ لمن یتولی الأمر أو الرئاسۃ‘ إذا توصلوا لقرار باجماع الکافۃ أو إجماع الجمھور وھذہ حالۃ من حالات الشوری الفقھیۃ الدستوریۃ الملزمۃ؛ لأنھا تضع قانونا أساسیاً أودستورا۔ ۔ ۔ ۳۔ قرار المجتھدین و أھل العلم باستنباط حکم فقھی‘ فیما لم یرد بشأنہ نص فی الکتاب والسنۃ إذا صدر بالاجماع وأقرتہ الأمۃ بالإجماع‘ ویکون ھذاحکماً فقھیاً ملزماً؛ لأنہ إجماع۔ ‘‘[2]
’’۱۔ امت یا ایک جماعت یا امت کے نمائندہ اہل حل و عقد کی تنظیم کی کسی سیاسی یا معاشرتی مسئلے سے متعلق اجتماعی قرارداد کے بارے میں باہمی مشورہ کرنامثلاًصدریا کسی صاحب أمر کی تعیین یا ان کے علاوہ اجتماعی معاملات میں سے کسی اہم معاملے کے بارے باہمی مشورہ کرنااور پھر سب کے یا جمہور کے اتفاق سے کسی قراداد کا پاس ہوجانا۔ ان حالات میں یہ قرارداد ایسی ہو گئی جو اجتماعی شوری کی لازم ہونے
[1] فقہ الشوری والاستشارۃ: ص۱۰۲
[2] أیضاً