کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 390
2۔ سلف کے دوسرے قول کے مطابق آپ کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرنے کا حکم جاری کرنے میں اصل حکمت یہ تھی کہ کسی مسئلے میں تدبیر کرتے ہوئے صحیح رائے کا حصول ممکن ہواور اسی وجہ سے مشورہ کو افضل بھی قرار دیا گیا ہے۔ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت ضحاک بن مزاحم رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ ما أمر اللّٰہ عز وجل نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالمشورۃ‘ إلا لما علم فیھا من الفضل۔ ‘‘[1]
’’اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف اسی لیے مشورہ کا حکم دیا ہے کہ مشورہ کرنے میں فضیلت ہے۔ ‘‘
اس رائے کا اظہار حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے بھی کیا ہے۔ [2]
3۔ متقدمین مفسرین کے تیسرے قول کے مطابق اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کا حکم اس لیے دیا ہے کہ بعد میں آنے والی امت کے لیے ان مسائل میں مشورہ کرنے‘ کہ جن کے بارے میں قرآن وسنت میں کوئی صریح حکم نہیں ہے‘ کے بارے میں ایک سنت جاری ہوجائے۔ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ ھی للمؤمنین‘ أن یتشاروا فیما لم یأتھم عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیہ أثر۔ ‘‘[3]
’’یہ حکم اصل میں اہل ایمان کے لیے ہے کہ وہ ان مسائل میں مشورہ کریں کہ جن میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اثر مروی نہیں ہے۔ ‘‘
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مفسر قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بھی ایک قول منقول ہے۔ اس قول کے مطابق آپ کو اس آیت میں بعض مخصوص صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرنے کا حکم جاری فرمایا گیا۔ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ عن ابن عباس فی قولہ اللّٰہ عز و جل ﴿وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ﴾ قال أبو بکر وعمر رضی اللّٰہ عنھما۔ ‘‘[4]
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ’وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ‘میں آپ کو یہ حکم دیاگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت أبو بکرو عمر رضی اللہ عنہما سے مشورہ کریں۔ ‘‘
مفسرین کی ایک بڑی جماعت کا خیال یہی ہے کہ اس آیت میں أمر کا صیغہ وجو ب کے لیے ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرناواجب تھا۔ ڈاکٹر أحمد علی الإمام لکھتے ہیں :
’’والمختار الذی علیہ جمھور الفقھاء ومحققو الأصول أن الأمر للوجوب وقرر الإمام ابن حجر العسقلانی أن الصحیح المختار ھو وجوب الشوری وعلی ذلک أیضا مذھب الأحناف حیث یقول الإمام الجصاص فی تفسیر قولہ ﴿ وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ ﴾ھذا یدل علی جلالۃ موقع المشورۃ لذکرھا مع الإیمان وإقامۃ الصلاۃ‘ ویدل علی أننا مأمورون بھا وھذا ما ذھب إلیہ الإمام الرازی حیث یقول: ظاھر الأمر الوجوب فی قولہ تعالی: ﴿وَ شَاوِرْھُمْ ﴾ وھو یقتضی الوجوب۔ ‘‘[5]
’’ راجح قول ‘کہ جس کو محققین فقہاء اور جمہور اصولیین نے اختیار کیاہے‘ کے مطابق فعل أمر وجوب کا فائدہ دیتا ہے۔ امام ابن حجر
[1] تفسیر الطبری: ۷؍ ۳۴۴
[2] أیضاً
[3] أیضاً:ص۳۴۵
[4] المستدرک علی الصحیحین‘ کتاب معرفۃ الصحابۃ‘ باب أما حدیث ضمرۃ وأبوطلحۃ (۴۴۳۶)‘ ۳؍ ۷۴۔
[5] Dr. Ahmed Ali Alimam, Nazratun Muaasaratun fi Fiqh ish Shura, Retrieved August 29,2009, from
http://www.dahsha.com/viewarticle.php?id=28890