کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 383
چاہیے۔ ان کی تجویز کے مطابق ہمارے موجودہ نظام میں سینٹ(Senate)ایک ایسا ادارہ ہے کہ جس میں علماء و فقہاء کو مناسب نمائندگی دی جا سکتی ہے اور پھر یہ ادارہ قومی اسمبلی کی مباح امور میں قانون سازی کی نگرانی اور سرپرستی کرے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’مقصد یہ ہے کہ شوری یا پارلیمنٹ میں بنیادی دستور(کتاب وسنت)کے علاوہ دوسرے امور ہی زیر غور کیوں نہ ہوں ‘کتاب و سنت کے ماہرین کی پھر بھی ضرورت ہے۔ اس لیے اس بارے میں جن حضرات نے ارکان شوری کے نمائندہ ہونے پر زور دیا ہے‘ تدبیری امور کی حد تک اس کی اہمیت تسلیم ہے‘ کیونکہ تدبیر وہی کامیاب ہوتی ہے جس میں تدبیر کرنے والوں کو رعایا کا اعتماد حاصل ہو۔ ۔ ۔ ‘‘وأمرھم شوری بینھم‘‘ کے قرآنی حکم کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس طرح اعتماد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ تاہم تدبیری امور میں شرعی احکام کی مطابقت کی جو شرط ہے‘ اس کے لیے ماہرین شریعت کی طرف سے نگرانی لازمی ہے۔ شرعی امور کی نگرانی کسی الیکشن اور سلیکشن کے بغیر بھی علمائے دین پر فرض کفایہ ہے مگر پارلیمنٹ خود اپنے اوپر اگر کچھ ماہرین شریعت و قانون کو نگران بنانا چاہے تو موجودہ حکومتی ڈھانچہ کے ایوان بالا(سینٹ)میں انہیں اسی طرح لایا جاسکتا ہے جس طرح ٹیکنو کریٹس کو لیا جاتا ہے۔ ‘‘[1] ڈاکٹر اقبال نے بھی ایسا ہی حل پیش کیاہے کہ علماء کی ایک مستقل مجلس پارلیمنٹ کی رہنمائی کے لیے علیحدہ سے موجود ہو لیکن اقبال مرحوم ایک طرف توپارلیمنٹ کے لیے صرف مباح امور میں نہیں بلکہ مطلق اجتہاد کے دعویدار ہیں اور دوسری طرف وہ علماء کی ایک علیحدہ مجلس کے قیام کو مستقل حل کے طور پر قبول کرتے نظر بھی نہیں آتے۔ وہ علماء کو پارلیمنٹ کے ایک جزء کے طور پر توقبول کرنے کو تیار ہیں لیکن علماء کی ایک ایسی اعلی مجلس بنا دینا کہ جس کی سرپرستی میں پارلیمنٹ قانون سازی کرے اور قانونی اعتبار سے علماء کی اس مجلس کو پارلیمنٹ پر بالادستی حاصل ہو تو وہ اس تصور کے قائل نہیں تھے اور اسے امت مسلمہ کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر اقبال لکھتے ہیں : ’’لیکن ابھی ایک اور سوال ہے جو اس سلسلے میں کیاجا سکتا ہے اور وہ یہ کہ موجودہ زمانے میں تو جہاں کہیں مسلمانوں کی کوئی قانون ساز مجلس قائم ہو گیااس کے ارکان زیادہ تر وہی لوگ ہوں گے جو فقہ اسلامی کی نزاکتوں سے ناواقف ہیں۔ لہذا اس کا طریق کار کیا ہو گا‘ کیونکہ اس قسم کی مجالس شریعت کی تعبیر میں بڑی بڑی شدید غلطیاں کر سکتی ہیں۔ ان غلطیوں کے ازالے یا کم سے کم امکان کی صورت کیاہو گی؟۱۹۰۶ء کے ایرانی دستور میں تو اس امر کی گنجائش رکھ لی گئی ہے کہ جہاں تک امور دینی کا تعلق ہے ‘ ایسے علماء کی جو معاملات دنیوی سے بھی خوب واقف ہیں ایک الگ مجلس قائم کر دی جائے تا کہ وہ مجلس کی سرگرمیوں پر نظر رکھے۔ یہ چیز بجائے خود بڑی خطرناک ہے‘ لیکن ایرانی نظریہ دستور کا تقاضا کچھ ایسا ہی تھا۔ ۔ ۔ بہر حال ایرانی نظریہ دستور کچھ بھی ہو یہ انتظام بڑا خطرناک ہے‘ اور سنی ممالک اسے اختیار بھی کریں تو عارضی طور پر۔ انہیں چاہیے مجالس قانون ساز میں علماء کو بطور ایک مؤثر جزو شامل تو کرلیں لیکن علماء بھی ہر امر قانونی میں آزادانہ بحث و تمحیص اور اظہار رائے کی اجازت دیتے ہوئے اس کی رہنمائی کریں۔ ‘‘[2] خلاصہ کلام یہ ہے کہ اجتماعی اجتہاد بذریعہ جمہوری طریقے سے منتخب پارلیمنٹ کا تصور اسلام کی روح کے منافی ہے۔ ہاں علماء‘ فقہاء اور ماہرین فن پر مشتمل ایک ایسے ادارے کو اجتماعی اجتہاد کا فریضہ سونپا جا سکتا ہے جو علم‘ عدالت‘ فقاہت اور صلاحیت کی اسلامی بنیاوں پر قائم ہو۔ پھر چاہے اس ادارے کو پارلیمنٹ کہہ لیں یا سینٹ ‘ مجلس اہل حل و عقد کا نام دے لیں یا مجلس شوری کا‘ اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ اس پر ہم مفصل بحث اگلی دو فصول میں کریں گے۔ ٭٭٭
[1] تعبیر شریعت اور پارلیمنٹ: ص۵۸۔ ۵۹ [2] تشکیل جدید إلہیات إسلامیۃ : ص۲۵۱