کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 382
ہے۔ مولاناعبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کے بقول اگر پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق دے دیا جائے تو یہ ایسا ہی ہے‘ جیسے اجتہاد کا حق علماء سے چھین کر عوام الناس میں تقسیم کر دیا جائے۔ مولانا کا کہنا یہ ہے کہ اجتہاد صرف علماء اور قرآن و سنت کے ماہرین ہی کر سکتے ہیں کیونکہ اجتہاد نام ہی قرآن و سنت کی وسعتوں میں حکم شرعی کا تلاش کا ہے اور یہ کام عوام الناس یا ان کے منتخب کردہ نمائندوں کے بس میں نہیں ہے۔ مولاناعبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
’’باقی رہااجتہاد کا معاملہ تو یہ عرض کیا جا چکا ہے کہ اجتہاد دراصل شرعی احکام ہی کی تلاش و اطلاق کا نام ہے‘ کوئی نئی شریعت وضع کرلینے کا نام نہیں۔ لہذا اس سلسلہ میں ضرورتوں کے مطابق وہی لوگ رہنمائی دے سکتے ہیں جو کتاب و سنت کی زبان اور اس کے علوم کے ماہر اور ان کی بھرپور بصیرت رکھتے ہوں۔ ۔ ۔ لہذا علماء کو تھیا کریسی کا طعنہ دے کر اجتہادی ذمہ داریاں عوام کے سپرد کرنا نرا احمقانہ تصور ہے۔ ‘‘[1]
مولانا عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ اجتہاد اگرچہ علماء کا حق ہے لیکن علماء کے اجتماعی اجتہادات کو بھی ریاستی قانون کی صورت میں ریاست کے تمام باشندوں پر نافذ کرنا درست نہیں ہے۔ ان کے بقول اگرقرآن وسنت کے ماہر علماء کی پارلیمنٹ بھی کوئی اجتہاد کرے تو اس کو بھی اس وقت تک ملک کا قانون یا دستور نہیں بنایا جا سکتا جب تک اس پر امت کے تمام علماء کا اجماع یا اتفاق نہ ہو جائے۔ مولانا عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ ’اجتہاد‘ میں حکومت اتھارٹی ہے نہ علماء دین! دستور و قانون کے سلسلہ میں کسی خاص طبقے کی وضع و تعبیر کے اعتبار سے اجارہ داری تھیا کریسی کی بنیادی روح ہے جو دلیل کی بنیار پر نہیں شخصی برتری کی بنیاد پر کسی طبقے کو حاصل ہوتی ہے۔ یہی حال حکمرانوں کے تصور ’اختیار حقوق ربانی‘(Devine rules of Kingdom)کا ہے۔ چناچہ دستور و تعبیر میں علماء کو دائمی اور عالمگیر اتھارٹی مانا جائے یا حکمرانوں اور پارلیمنٹ کو ‘ یہ بہر حال خدائی حقوق میں دخل اندازی ہے۔ ۔ ۔ یہی وجہ ہے کہ أئمہ سلف نے خود کو کبھی اتھارٹی قرار نہیں دیا۔ ‘‘[2]
مولانا عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ کے قائلین اکثر و بیشتر وہ متجددین ہیں جو أئمہ سلف کی تقلید کے شدید مخالف ہیں جیسا کہ ڈاکٹر اقبال‘ ڈاکٹر جاوید اقبال اور ڈاکٹریوسف گورایہ وغیرہ۔ لیکن یہی متجددین ایک طرف تو أئمہ سلف کی تقلید کی مخالفت کرتے ہیں جو کہ قرآن و سنت کے ماہرین تھے اور دوسری طرف پارلیمنٹ کی تقلید کی دعوت دیتے ہیں کہ جس کے ممبران کی اکثریت شرعی علوم کی الف‘ باء سے بھی واقف نہیں ہوتی۔ وہ لکھتے ہیں :
’’طرفہ یہ کہ اس نظریہ کے حامل لوگ جس شدو مد سے تقلید کی مخالفت کرتے ہیں ‘ اس سے کہیں زیادہ شورو غوغا آرائی کے ساتھ حکومت یا پارلیمنٹ کی تعبیر و تقنین کو اتھارٹی منوانے پر تلے ہوئے ہیں۔ فکر ونظر کا یہ کتنا بڑا تضاد ہے؟۔ ‘‘[3]
ڈاکٹر اسرار أحمد حفظہ اللہ کے ساتھ مولاناعبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کا کہنا بھی یہ ہے کہ پارلیمنٹ مباح امور میں نظم و نسق قائم کرنے کے لیے قانون سازی کر سکتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’پارلیمنٹ کا دائرہ عمل مباح امور میں تدبیر و انتظام کی حد تک ہے! حاصل یہ ہے کہ پارلیمنٹ کا دائرہ کار صرف مباحات تک محدود ہے۔ ۔ ۔ اور اباحت کا بھی ایک پہلو چونکہ شرعی حکم ہونے کا ہے‘ اس لیے اس پر نگرانی کتاب و سنت کی رہنی چاہیے۔ ۔ ۔ جنگی تدابیر میں أولی الأمر کو اجازت ہے کہ وہ مشورہ کے بعد کوئی سی بھی تدبیر اختیار کر لیں۔ لہٰذا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کے بعد اساری بدر کو فدیہ لے کر رہا کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا۔ لیکن قرآن مجید نے اس مباح امر میں ایک شرعی حکم سے ہٹ جانے کی بنا پر سرزنش کی۔ ‘‘[4]
لیکن وہ ساتھ ساتھ یہ بھی وضاحت کرتے ہیں کہ مباح امور میں قانون سازی کے وقت بھی پارلیمنٹ کو علماء کی رہنمائی حاصل ہونی
[1] تعبیر شریعت اور پارلیمنٹ : ص۲۱
[2] أیضاً: ص۲۲۔ ۲۳
[3] أیضاً: ص۲۸
[4] أیضاً:ص۵۷