کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 380
whethera non-Muslim legislative assembly can excercise the power of Ijtihad.''[1]
’’مذاہب اربعہ کے نمائندے جو سردست فرداً فرداً اجتہاد کا حق رکھتے ہیں ‘ اپنا یہ حق مجالس تشریعی کو منتقل کر دیں گے۔ یوں بھی مسلمان چونکہ متعدد فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اس لیے ممکن بھی ہے تو اس وقت اجماع کی یہی شکل۔ مزید بر آں غیر علماء بھی جو ان امور میں بڑی گہری نظر رکھتے ہیں ‘ اس میں حصہ لے سکیں گے۔ ۔ ۔ ہندوستان میں البتہ یہ امر کچھ ایسا آسان نہیں کیونکہ ایک غیر مسلم مجلس کو اجتہاد کا حق دینا شاید کسی طرح ممکن نہ ہو۔ ‘‘[2]
ڈاکٹر اقبال کی اس عبارت میں چار مقامات ایسے ہیں جوان کے نظریہ اجتہاد کی وضاحت کر رہے ہیں :
1۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر اقبال اس مقام پرمختلف مکاتب فکر کے نمائندوں یعنی افراد سے اجتہاد کا حق لینے کی بات کر رہے ہیں تو امت مسلمہ کی تاریخ میں کیا کبھی مجتہدین کے پاس اجتہاد کے نفاذ کا حق رہا ہے؟ کیا اقبال اس سے ناواقف تھے کہ مختلف مکاتب فکر کے نمائندوں کا اجتہاد کیا تھا؟ اگر نہیں تو اقبال کے ہاں جب مکاتب فکر کے نمائندوں سے پارلیمنٹ کی طرف اجتہاد کے منتقل ہونے کی بات ہوتی ہے تو کیا اس سے مراد مکاتب فکر کے نمائندوں سے اجتہاکے نفاذ کی اس قوت کو پارلیمنٹ کی طرف منتقل کرنا ہے جو پوری تاریخ اسلامی میں کبھی ان کے پاس رہی ہی نہیں ؟۔
2۔ دوسری بات یہ ہے کہ اقبال اجتہاد کے ساتھ ساتھ اجماع کی بھی بات کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار صاحب کی تعبیر لیں تو اقبال کے ہاں اجماع کا مفہوم یہ بنے گا کہ اگر کسی مجتہد کی رائے تو کوئی پارلیمنٹ بالاتفاق نافذ کر دے تو اقبال کے ہاں اجماع حاصل ہو جائے گا۔ کیا اقبال اجماع کے مفہوم سے ہی ناواقف تھے کہ کسی رائے کے نفاذ پر اتفاق کو اجماع کہتے ہیں یا کسی رائے پر علمی اتفاق کا نام اجماع ہے؟۔
3۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اقبال اس عبارت میں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کا اجتہاد ایسا ہو گا کہ غیر علماء جو مختلف فنون کے ماہرین ہوں وہ بھی کسی مسئلے کے بارے میں قانونی بحث میں حصہ لے سکیں گے۔ اب قانونی بحث اور قانون کے نفاذ میں کیا فرق ہے‘ یہ شاید اقبال مرحوم کے ہاں تو کم از کم واضح ہو گا۔
4۔ چوتھی دلیل یہ ہے کہ ڈاکٹر اقبال انڈیا کی پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق نہیں دے رہے۔ حالانکہ اگر ڈاکٹر اسرار صاحب کا مفہوم لیا جائے تو اقبال کے ہاں انڈیا کی اسمبلی کے لیے بھی اجتہاد کا حق جائز ہوناچاہیے۔ اس میں کیا حرج ہے کہ علمائے دیوبندانڈیا کے مسلمانوں کے لیے اجتہاد کریں اور انڈیا کی اسمبلی اس کو نافذ کر دے۔ اگر اقبال کے نزدیک اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ سے مراد اجتہاد کا صرف نفاذ ہی ہے تو پھر انڈیا کی پارلیمنٹ بھی اجتہاد کر سکتی ہے۔ لیکن مذکورہ بالا عبارت کے مطابق اقبال اس کے قائل نہیں ہیں۔ ایک اور جگہ اقبال فرماتے ہیں :
'' 2. one more question may be asked as to the legislative activity of a modern Muslim assembly which must consist' at least for the present' mostly of men possessing no knowledge of the subtleties of Muhammadan Law. Such an assembly may make grave mistakes in their interpretaion of law. How can we exclude or at least reduce?...The Ulema should form a vital part of a Muslim legislative assembly helping and guiding free discussion on questions relating to law.''[3]
’’لیکن ابھی ایک اور سوال ہے جو اس سلسلے میں کیاجا سکتا ہے اور وہ یہ کہ موجودہ زمانے میں تو جہاں کہیں مسلمانوں کی کوئی قانون ساز مجلس قائم ہو گیااس کے ارکان زیادہ تر وہی لوگ ہوں گے جو فقہ اسلامی کی نزاکتوں سے ناواقف ہیں۔ لہذا اس کا طریق کار کیا ہو گا‘ کیونکہ اس قسم کی مجالس شریعت کی تعبیر میں بڑی بڑی شدید غلطیاں کر سکتی ہیں۔ ان غلطیوں کے ازالے یا کم سے کم امکان کی صورت کیاہو گی؟...انہیں چاہیے مجالس قانون ساز میں علماء کو بطور ایک مؤثر جزو شامل تو کرلیں لیکن علماء بھی ہر امر قانونی میں آزادانہ بحث و تمحیص اور
[1] The Reconstruction of Religious Thoughts in Islam : p138
[2] تشکیل جدید إلہیات إسلامیۃ : ص۲۴۸۔ ۲۴۹
[3] The Reconstruction of Religious Thoughts in Islam : p139