کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 379
سارے پاپڑ بیل کر اس قانون کو پاس کروائیں اور کوئی جا کرعدلیہ سے یہ فتوی حاصل کر لے کہ یہ تو کتاب و سنت کے خلاف ہے‘ اس طرح تو ہماری تمام تر محنت کے اوپر پانی پھر جائے گا۔ اب بھی ہماری اسمبلی میں اگر کوئی بل پیش ہوتاہے تو اس پر ماہرین کی رائے لی جاتی ہے۔ ۔ ۔ پارلیمنٹ کا کام اجتہاد یعنی قانون سازی ہے۔ اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ علماء کے اجتہاد سے فائدہ اٹھائے گی۔ ۔ ۔ آخر انہیں قانون بنانا ہے تو انہیں ملک کے اندر جو بھی اصحاب علم ہوں گے ان کی آراء سامنے رکھنی ہوں گی۔ وہ ان آراء پر خود بھی غور و فکر کریں گے اور اپنے پاس ایسے ماہرین بھی رکھیں گے جو ان آراء کا اچھی طرح جائزہ لیں ‘ ان کو Scruitinizeکریں۔ پھر اسمبلی وہ قانون پاس کرے گی۔ اس کے بعد انتظامیہ(Executive)اس قانون کو نافذ کرے گی‘ اگر یہ کتاب و سنت کے منافی ہے تو عدلیہ(Judiciary)اسے کالعدم قرار دے گی۔ چناچہ ان ریاستی اداروں کا علیحدہ علیحدہ کام کرنا بہت ضروری ہے۔ ‘‘[1]
ڈاکٹر اقبال مرحوم کے نظریہ اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ کے بارے ڈاکٹر صاحب کا خیال یہ ہے کہ ڈاکٹر اقبال کے ہاں بھی پارلیمنٹ کے اجتہاد سے مراد اجتہاد کا نفاذ ہے نہ کہ خود اجتہاد کرنا۔ ڈاکٹر اسرار صاحب کے بقول اقبال مرحوم کے خطبہ اجتہاد کا یہ مفہوم کہ ان کے نزدیک عصر حاضر میں اجتہاد مطلق کا اختیار کسی مسلمان ملک کی پارلیمنٹ کو حاصل ہے‘ ان کے بیٹے ڈاکٹر جاوید اقبال نے عام کیاہے جو سراسر غلط ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں :
’’دور نبوت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اجتہاد کرنے اور اسے نافذ کرنے کا اختیار تھا اور یہی کیفیت بالعموم خلافت راشدہ میں جاری رہی۔ ۔ ۔ بعد میں جب بادشاہت کا دور آیاتو اجتہاد کا حق علماء کو حاصل ہو گیا‘ جبکہ اسے نافذ کرنے اور نہ کرنے کا اختیار حاکم وقت یا خلیفہ وقت کے پاس تھا۔ آج کے دور میں قوت نافذہ چونکہ پارلیمنٹ کے پاس ہے‘ اس لیے پارلیمنٹ ہی اسے منظور اور نافذ کرے گی۔ علامہ اقبال نے جو بات اپنے خطبات میں کہی تھی کہ اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ ہو گا‘ اس سے میرے نزدیک ان کی یہی مراد تھی ورنہ اجتہاد تو ظاہر ہے وہی لوگ کریں گے جنہیں دینی علوم میں مہارت حاصل ہو گی۔ ‘‘[2]
ہمیں ڈاکٹراسرا ر صاحب کے اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں ہے کہ ڈاکٹر اقبال کے نزدیک اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ کا مفہوم اس کے نفاذ کی بحث ہے۔ ڈاکٹر اقبال کے خطبہ اجتہاد کی عبارتیں اس لحاظ سے بالکل واضح اور صریح ہیں کہ ان کے نزدیک پارلیمنٹ کے اجتہاد سے مراد‘ عصر حاضر میں پارلیمنٹ کو مجتہد مطلق کا فریضہ سر انجام دینا ہے۔ بیسیوں ماہرین اقبالیات کہ جنہوں نے اپنی زندگیاں اقبال پر تحقیق میں کھپا دیں ‘ ان سب نے خطبہ اجتہاد کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ سید نذیر نیازی ہوں یا سید سلیمان ندوی‘ سہیل عمر ہوں یا أحمد جاوید ‘ سب ڈاکٹر اقبال کے نظریہ اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ کا ایک ہی مفہوم بیان کرتے ہیں۔
ہمارے خیال میں کسی مسئلے میں ماہرین کی ایک جماعت کے مقابلے میں ایک منفرد رائے بھی صحیح ہو سکتی ہے بشرطیکہ وہ قوی دلائل پر مبنی ہو لیکن ڈاکٹر اسرار صاحب کے اس موقف کی بنیاد اقبال مرحوم سے حسن ظن کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ڈاکٹر اقبال کے خطبہ اجتہاد کی عبارتیں اچھی طرح اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ ڈاکٹر اسرار صاحب کا بیان کردہ مفہوم قطعاًاقبال مرحوم کا مقصود نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر اقبال کے خطبہ اجتہاد کی بعض عبارتوں پر غور کریں تو یہ مسئلہ نکھرکر سامنے آجاتا ہے کہ اقبال مرحوم کے ہاں اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ سے کیا مراد تھا؟۔ ذیل میں ہم اقبال مرحوم کے خطبہ اجتہاد کی چند عبارات نقل کر رہے ہیں جو یہ بتلا رہی ہیں کہ ان کے نزدیک پارلیمنٹ کے اجتہاد سے مراد مطلق اجتہاد ہے۔ ایک جگہ ڈاکٹر اقبال فرماتے ہیں :
'' 1. The transfer of the power of ijtihad from individual representatives of schools to a Muslim legislative assembly which' in view of the growth of opposing sects' is the only possible form Ijma can take in modren times' will secure constributions to legal dicussions from laymen who happen to possess a keen insight into affairs...In India' however' difficulities are likely to arise for it doubtful
[1] ماہنامہ میثاق‘ عصر حاضر میں اجتہاد کا طریق کار‘ اکتوبر۱۹۹۷ء‘ ص۱۹۔ ۲۱
[2] سہ ماہی اجتہاد ‘ اقبال کا نظریہ اجتہاد اور عصری تقاضے‘ جون ۲۰۰۷ء‘ ص۷۴