کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 378
ڈاکٹر صاحب کی یہ تجویز اس وقت قابل عمل ہو سکتی ہے جبکہ عدالتوں میں جو قاضی متعین کیے جائیں وہ علوم شرعیہ سے واقف ہوں۔ جبکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ ہماری عدالتوں کے جج حضرات ایک توقرآن وسنت اور بنیادی شرعی علوم سے ناواقف ہوتے ہیں ‘ دوسرااس اخلاقی معیار پر پورا نہیں اترتے جو ایک قاضی کے لیے اسلام مقرر کرتا ہے۔ پس علوم شرعیہ سے ناوقف اور ظالمانہ قوانین کے تحت فیصلے کرنے والے ایسے جج حضرات کہ جن کے فیصلے ایوان صدر کے اشاروں کے منتظر رہتے ہوں ‘کس طرح شرعی احکام کی قانون سازی میں فیصلہ کن کردار کے حامل ہو سکتے ہیں ؟۔ قرآن وسنت میں ایک قاضی کے لیے جو معیار مقرر کیا گیا ہے‘ معاصر عدالتوں کے جج اس کے قریب سے بھی نہیں گزرتے۔ پس ڈاکٹر صاحب کی یہ تجویز اسی صورت قابل عمل ہو سکتی ہے جبکہ عدالتوں میں مجتہد قاضی موجود ہوں۔
ایک دوسرا اور نہایت ہی قابل عمل حل یہ ہوسکتا ہے کہ صرف وفاقی شرعی عدالت ہی کو یہ اختیار دیا جائے کہ پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین پر نظر ثانی کر سکے اور اس عدالت میں مختلف مکاتب فکر کے فقہاء وعلماء کو مؤثر نمائندگی دی جائے۔
ڈاکٹر صاحب کے بقول اس طریقہ کار ایک فائدہ تو یہ ہے کہ ہر شخص عدالت کی طرف رجوع کرسکتا ہے اور یہ دعوی کر سکتا ہے کہ فلاں قانون کتاب و سنت کے منافی ہے لہذا اس کو ختم ہونا چاہیے۔ پس عدالت اس قانون پر نظر ثانی کرے گی۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں :
’’اب قوت نافذہ اس مقننہ(Legislature)کے پاس ہے۔ یعنی مباحات کے دائرے کے اندر کس چیز کو اختیار کیا جائے‘ یہ فیصلہ کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کے پا س ہے۔ فرض کیجیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس نے قوت نافذہ کے استعمال میں کتاب وسنت سے تجاوز کیاہے تو میں جاؤں گااورعدلیہ(Judiciary)یعنی اعلی عدالتوں کا کنڈاکھٹکھٹاؤں گاکہ مجھے موقع دیا جائے‘ میں ثابت کرتا ہوں کہ قانون سازی میں کتاب و سنت سے تجاوز ہو گیا ہے۔ یہ طریقہ ہے جو اس دور میں قابل عمل ہو گا۔ لیکن ظاہر بات ہے نئی قانون سازی کے لیے پھر پارلیمنٹ ہی کی طرف رجوع کیا جائے گا‘ اس لیے کہ قوت نافذہ تو اس کے پاس ہے۔ ورنہ اگر قانون سازی کا آخری اختیار عدلیہ کو دے دیا جائے توپھر تو عدلیہ کی حکومت ہو گئی۔ پارلیمنٹ کا کام کیا رہ جائے گا؟۔ عدلیہ کا کام صرف ایک ماہرانہ رائے(Expert Opinion)دینا ہے کہ آیا کسی معاملے میں کتاب و سنت کی حدود سے تجاوز تو نہیں ہوگیا۔ اگر نہیں ہوا توعدلیہ اس قانون کو برقرار رکھے گی۔ اور اگر عدلیہ اس نتیجے پر پہنچے کہ قانون سازی میں کتاب وسنت کی حدود سے تجاوز ہو گیا ہے تو یہ قانون واپس پارلیمنٹ کے سپرد کیا جائے گاکہ وہ اس میں ترمیم کرے یانیا قانون بنائے۔ ‘‘[1]
ڈاکٹر صاحب کی یہ تجویز ایک عمدہ رائے ہے لیکن ہمارے خیال میں ڈاکٹر صاحب کے اس عبارت میں ’کوئی بھی شخص ‘کی بجائے’ کوئی بھی صاحب علم ‘کا لفظ ہونا چاہیے تھا۔ اور صاحب علم بھی ایسا ہو جومعاشرے میں ایک عالم ہونے کی حیثیت سے متعارف بھی ہو۔ ایسے صاحب علم کو عدالت کی طرف رجوع کرنے کا حق حاصل ہو۔
ہماری رائے میں اگر ہر شخص کو ہی یہ اجازت دے دی گئی تو پھر عدالتیں سوائے اس کے اور کوئی کام نہ کر سکیں گے کہ و ہ سارا سال قرآن وسنت کے منافی قوانین کے درخواستوں کی سماعتیں ہی کرتی رہیں۔ علاوہ ازیں ہر أیرے غیرے کو یہ حیثیت دینا کہ وہ عدالت میں جا کر اس پر بحث کرسکے کہ فلاں قانون قرآن و سنت کی روشنی میں اباحت کے درجے کا ہے یا نہیں ؟ اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانے والی بات ہو گی۔
ڈاکٹر صاحب کے بقول اگر اس طریقہ کارکو اختیار کر لیا جائے یعنی پارلیمنٹ کو مباح امور میں قانون سازی کا حق تو حاصل ہو لیکن اس پر عدلیہ کی نگرانی موجود ہو تو اس صورت میں پارلیمنٹ اگرچہ مجتہدین پر مشتمل نہ بھی ہو‘ پھر بھی قانون بنانے میں محتاط ہو گی اور کوئی بھی قانون سازی کرنے سے پہلے علماء و فقہاء سے مشورہ ضرورکرے گی۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں :
’’اگر ایسا ہو جائے گا توخود پارلیمنٹ قانون سازی میں خوب سوچ و بچار سے کام لے گی اور ماہرین کی رائے سے کوئی قانون بنائے گی۔ پارلیمنٹ میں اگر کوئی بل پیش کیا جائے گا تو پہلے علماء سے مشورہ کیا جائے گا۔ خود ارکان پارلیمنٹ کو یہ اندیشہ ہو گاکہ ایسا نہ ہو کہ ہم تو
[1] ماہنامہ میثاق‘ عصر حاضر میں اجتہاد کا طریق کار‘ اکتوبر۱۹۹۷ء‘ ص۱۹۔ ۲۰