کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 376
ناواقف اسمبلی ممبران کی پاس کردہ قراردادیں ‘ قرآن و سنت کے ماہر فقہاء و مجتہدین کی آراء کے بالمقابل قابل ترجیح ہوں گی کیونکہ سیاسی پارٹیوں کے شریعت سے ناواقف اسمبلی ممبران کا اجتہاد ‘ اجتماعی اجتہاد ہے جبکہ فقہاء و مجتہدین کا اجتہاد انفرادی اجتہاد۔ ڈاکٹر یوسف گورایہ لکھتے ہیں : ’’اسلام میں اختیار حکمرانی پوری امت کو حاصل ہے۔ اسلامی آئین کی اس دفعہ نے اسلام کو تمام مذاہب عالم پر جمہوری فوقیت عطا کر دی ہے۔ اسلام میں جمہور مسلمانوں کی آزادانہ‘ منصفانہ اورغیر جانبدارانہ استصواب رائے عامہ کے ذریعے اختیار حکمرانی‘ان کے منتخب نمائندوں کو منتقل ہوتا ہے۔ جن پر مشتمل منتخب نمائندہ پارلیمنٹ‘ جمہور مسلمانوں کے نمائندے کی حیثیت سے اجتماعی اجتہاد کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ منتخب پارلیمنٹ کا اجتماعی اجتہاد‘ انفرادی اجتہاد سے کالعدم‘ منسوخ یا تبدیل نہیں ہو سکتا۔ کوئی انفرادی اجتہاد‘ چاہے وہ کتنے بڑے مجتہد کا ہو‘ اجتماعی اجتہاد کی جگہ نہیں لے سکتا۔ انفرادی اجتہاد کوپہلے اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائندہ منتخب پارلیمنٹ سے منوانا پڑے گا‘ پھر وہ اجتماعی اجتہاد پر اثر انداز ہو سکے گا۔ ‘‘[1] ڈاکٹر یوسف گورایہ صاحب کے بقول پارلیمنٹ کے اجتہادات تعبیر شریعت ہیں اور اگر پارلیمنٹ کا کسی اجتہاد پر اتفاق ہو جائے تو اس کی حیثیت اجماع کی ہو گی جیسا کہ کسی بھی ملک کے آئین پر پارلیمنٹ کا اجتہاد ہوتا ہے لہذا ریاست کے آئین کی مخالفت یااس کی تنسیخ یا اس میں تبدیلی اجماع امت کی خلاف ورزی کے قائمقام ہے۔ ڈاکٹر یوسف گورایہ لکھتے ہیں : ’’جمہور مسلمانوں کی منتخب پارلیمنٹ کا منظور کردہ آئین‘ اس دور کی تعبیر شریعت پر مبنی اجتماعی اجتہاد ہے۔ جو خطا سے مبرا ہے۔ حدیث رسول مقبول ہے’’إن اللہ لا یجمع أمتی علی ضلالۃ‘‘میری امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی۔ اس حدیث کے مطابق مسلمانوں کا اجتماعی اجتہاد گمراہی پر مبنی نہیں ہوتا‘ گمراہی کے مقابلے میں ہدایت ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کا اجتماعی اجتہاد ہدایت اورصراط مستقیم پر مبنی ہوتاہے۔ ۔ اس اعتبار سے اسلامی ریاست کی منتخب نمائندہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ آئین کو تقدس کادرجہ حاصل ہوتاہے۔ ‘‘[2] ڈاکٹر یوسف گورایہ مملکت پاکستان میں فوجی جرنیلوں کی طرف سے لگائے گئے مارشل لاز(Marshal Laws)سے اس قدر رد عمل میں ہیں کہ وہ ایسے آمروں کو جہنم واصل کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے اجتماعی اجتہاد اور اجماع کے تصور کو دلیل بناتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں : ’’ان مباحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اسلامی ریاست کی منتخب نمائندہ پارلیمنٹ کو آمریت کے ذریعے ختم کرنا اور منتخب نمائندہ پارلیمنٹ کے منظور شدہ آئین کوآمریت کے ذریعہ کالعدم قرار دینا یامنسوخ کرنا یا تبدیل کرنا’’اتباع غیر سبیل المؤمنین‘‘ہے۔ مومنین کی روش سے ہٹ کر چلنا ہے۔ جو جہنم کی طرف جاتی ہے اور آمر کو واصل جہنم بناتی ہے۔ قرآن وسنت کی مستند‘ مسلمہ اور مصدقہ تعلیمات کے مطابق ایسے مجرم کو دنیا میں شدید ترین سزا دی جا سکتی ہے۔ ‘‘[3] یہ اقبال مرحوم کے نظریہ اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ کی ارتقائی شکل ہے کہ جس کے مطابق پارلیمنٹ کی قانون سازی شریعت الہی کی مجمع علیہ تعبیر کا درجہ اختیار کر جاتی ہے اوراس کی مخالفت کسی شخص کو جہنمی اور واجب القتل بنانے کے لیے کافی قرار پاتی ہے۔ ڈاکٹر یوسف گورایہ لکھتے ہیں : ’’آئین مسلمانوں کی منتخب نمائندہ پارلیمنٹ کے اجتماعی اجتہاد سے منظور ہوتاہے‘ جسے اسلامی ریاست میں تقدس کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ آئین قرآن و سنت کی تعبیر اور شریعت کی توجیہ ہوتا ہے۔ جس کی حقانیت اور صداقت کی دلیل قوم کے اجتماعی اجتہاد کی صورت میں موجود ہوتی ہے۔ اجتماعی اجتہاد ہدایت اور صراط مستقیم پر قائم ہوتا ہے۔ اس دینی‘ قومی اور اجتماعی مقدس امانت کو جو فرد‘ فرقہ یا طبقہ کالعدم‘ منسوخ یا معطل کرتاہے وہ دراصل قومی شہ رگ کو کاٹتا ہے۔ وہ جمہور مسلمانوں کے بنیادی حقوق‘ قانون کی حکمرانی اور شہری آزادیوں پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔ اس لیے ایسا شخص قاتل اور ڈاکو کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے‘ اس پر قتل اور ڈاکے کا مقدمہ چلا کر اسے پھانسی کی قرآنی سزا دی جانی چاہیے۔ ‘‘[4]
[1] اسلام آئین اور صوابدید : ص۳۸ [2] أیضاً:ص۴۱ [3] أیضاً: ص۴۵ [4] أیضاً: ص۴۶۔ ۴۷