کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 370
بغیر ایک ایسے منصب پر فائز ہو نے کی کوشش‘ جہاں سے وہ ملت اسلامیہ کی تشکیل نو کا فریضہ بھی سنبھال لیتے ہیں اور اجتہاد کا طریقہ کار بھی خود طے کر لیتے ہیں۔ ‘‘[1] أحمد جاوید صاحب حفظہ اللہ ‘ سید صاحب کے اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ریاستی سطح پر قانون سازی کا یہ عمل ظاہر ہے کچھ ادارں ہی کی طرف سے ہو گا۔ اقبال کی نظر میں وہ ادارہ پارلیمنٹ ہے۔ اب اگر پارلیمنٹ‘ علم‘ مزاج اور کردار کے دینی معیارات پر پوری نہیں اترتی‘ تو پارلیمنٹ کودرست کرنا چاہیے‘ اقبال کی اس تجویز پر جرح کرنے سے کیا حاصل؟۔ ‘‘[2] أحمد جاوید حفظہ اللہ کا یہ الزامی جواب نہایت کمزور پہلو لیے ہوئے ہے۔ اس جواب کی مثال ایسے ہی ہے کہ ایک شخص یہ فکر پیش کرتا ہے کہ ہندوستان کی پارلیمنٹ کو ہندوستان میں موجود مسلمانوں کے لیے اجتہاد کا فریضہ سر انجام دینا چاہیے اور جب کوئی مد مقابل اس پر یہ اعتراض کرے کہ ایک غیر مسلم اسمبلی مسلمانوں کے لیے اجتہاد کیسے کرے گی ؟ تو احمد جاوید حفظہ اللہ کے بقول اس کو یہ جواب دے کر چپ کروایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کی پارلیمنٹ کے حق اجتہاد پر بحث کرنے کی بجائے ہندوستان کی اسمبلی کو مسلمان کرنا چاہیے۔ در حقیقت یہ ایسا جواب ہے کہ جس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اقبال مرحوم کے خطبات کے مصادر و مراجع پر بھی سید صاحب نے بڑا قیمتی نقد پیش کیا ہے۔ سید صاحب کے بقول ڈاکٹراقبال کسی بھی مسئلے پر اپنی فکر بنانے کے لیے عموماً یا تو مترجم کتابوں کا سہارا لیتے تھے یا علماء سے خط و کتابت کے ذریعے کچھ معلومات حاصل کرتے اور پھر ان ناقص یا ثانوی معلومات کی بنیاد پر ایک فلسفہ بنالیتے تھے۔ سید صاحب فرماتے ہیں: ’’اقبال مرحوم کا فقہ اسلامی پر نقد مستشرقین کے زیر اثربہت پیچیدہ اور گنجلک ہو جاتا ہے اور اکثر مقامات پر وہ انہی کی بات اپنے نام سے کرتے ہیں ‘ ان کا یہ کہنا کہ مالکی شافعی فقہاء حقیقت پسند تھے‘ جب کہ حنفی فقہ تخیلاتی اور کلامی مباحث کامجموعہ ہے‘ نہایت غیر علمی اور نہایت سطحی بات ہے۔ اصلاً وہ فقہ اسلامی کے قیمتی ذخیرے سے ناواقف تھے‘ ان پر ان کی گہری نظر نہ تھی‘ چند اہم مشہور کتابیں انہوں نے مترجم کے ذریعے پڑھ ڈالیں اور اس کمزور مطالعے کے بل پر لامحدود دعوے کر دیے‘ اس میں ان کا اخلاص موجود ہے لیکن اخلاص علم کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ ۔ ۔ اقبال مرحوم کا ایک طریقہ یہ بھی تھاکہ وہ مختلف متحارب مکاتب فکراور گروہوں کے لوگوں سے خط و کتابت کرتے تھے اور اس خط و کتابت سے حاصل شدہ معلومات کے تبادلے سے کچھ مفروضات قائم کر کے اپنی ذہانت سے بعض غیر معمولی نتائج اخذ کر لیتے‘ ان میں وہ علمی اہلیت نہیں تھی کہ ان نکات کی تائید و تصدیق متعلقہ کتب سے براہ راست کر سکتے‘ وہ علم کی بجائے تعقلی وجدان کے سہارے دین پر نقد کرتے تھے۔ ‘‘[3] سید صاحب‘ ڈاکٹر اقبال کی کتاب کے عنوان کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کے بقول یہ عنوان ہی سرے سے غلط اور اپنے مفہوم کے اعتبار سے بہت سی گمراہیوں کا حامل تھا۔ سید صاحب لکھتے ہیں : ’’اقبال مرحوم نے خطبات کا نام Re-Constructionرکھا‘ مجھے اس پر بھی اعتراض تھا‘ تعمیر نو یا تشکیل نو کا کیا مطلب؟ کیا عمارت منہدم ہو گئی۔ تشکیل نو کا مطلب دین کی ازسر نو تعمیر کے سوا کیا ہے یعنی اسلام کی اصل شکل مسخ ہو گئی۔ اب اسے از سر نو تعمیر کیا جائے یہ دعوی پوری اسلامی تاریخ کو مسترد کرنے کے سوا کیا ہے؟ان امور میں اقبال مرحوم مغرب سے اس قدر متاثر ہیں کہ اسلامی دنیا کو تیزی سے روحانی طور پر مغرب کی طرف بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں۔ ‘‘[4]
[1] سہ ماہی اجتہاد ‘ خطبات اقبال کا ناقدانہ جائزہ‘جون۲۰۰۷ء‘ ص۵۴ [2] أیضاً: ص۶۷ [3] أیضاً:ص۵۸ [4] أیضاً: ص۶۲