کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 331
’’۱۰۶۔ یحال کل مشروع قانون إلی إحدی لجان المجلس لفحصہ وتقدیم تقریر عنہ علی أنہ بالنسبۃ إلی مشروعات القوانین المقدمۃ من أعضاء المجلس النیابی فإنھا لا تحال إلی تلک اللجنۃ إلا بعد فحصھا أمام لجنۃ خاصۃ لإبداء الرأی فی جواز نظر المجلس فیھا وبعد أن یقرر المجلس ذلک۔ ۱۰۷۔ کل مشروع قانون اقترحہ أحد الأعضاء ورفضہ المجلس لایجوز تقدیمہ ثانیۃ فی نفس دور الانعقاد۔ ۱۰۸۔ للامام حق إصدار القوانین أو الاعتراض علیھا۔ ۱۰۹۔ إذا اعترض الامام علی مشروع قانون أقرہ المجلس النیابی ردہ إلیہ خلال ثلاثین یوماً من تاریخ إبلاغ المجلس إیاہ فإذا لم یرد مشروع القانون فی ھذا المیعاد اعتبر قانوناً وأصدر‘ و إذا رد فی المیعاد المتقدم إلی المجلس وأقرہ ثانیۃ بأغلبیۃ أعضائہ اعتبر قانوناً وأصدر۔ ‘‘[1] ’’۱۰۶۔ ہر قانونی پراجیکٹ چھان پھٹک اور اس کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی کسی ایک کمیٹی کی طرف بھیجا جائے گا جبکہ وہ قانونی پروگرامات‘ جن کی تجویز کسی رکن پارلیمنٹ کی طرف سے سامنے آئے گی‘ اس کمیٹی کی طرف صرف اسی صورت بھیجے جائیں گے جبکہ کسی خاص ذیلی کمیٹی نے اس کے بارے میں چھان پھٹک کرکے یہ رائے ظاہر کر دی ہو کہ پارلیمنٹ کا اس بارے غور کرنا جائز ہے اور اس کے بعد پارلیمنٹ اس کو(مخصوس تحقیقی کمیٹی کی طرف بھیجنے کے لیے)پاس کرے گی۔ ۱۰۷۔ ہر وہ قانونی پروگرام جس کو کسی رکن پارلیمنٹ نے پیش کیا ہو اور پارلیمنٹ نے اس کو رد کر دیا ہو تو اسی اجلاس کے دوران اس کودوبارہ پیش کرنا درست نہ ہو گا۔ ۱۰۸۔ امام کو قوانین صادر کرنے اور ان پر اعتراض کرنے کا حق ہو گا۔ ۱۰۹۔ اگر امام کسی ایسے قانون پر اعتراض وارد کر دے جسے پارلیمنٹ نے پاس کیا ہوتو امام اس قانون(کی تصحیح)کو پارلیمنٹ کی طرف سے اس کے پاس ہونے کی تاریخ کے ایک ماہ کے اندر اندر لوٹائے گا۔ پس اگر اس مدت میں امام نے وہ قانون(تصحیح کے بعد )واپس نہ کیاتو وہ قانون نافذ العمل سمجھا جائے گا۔ اسی طرح اگر اس مدت کے دوران امام نے وہ قانون پارلیمنٹ کی طرف لوٹا دیا اور پارلیمنٹ نے دوبار اس قانون کو(اپنی اصل شکل میں )پاس کر دیا تو اس قانون کو نافذ العمل سمجھا جائے گا۔ ‘‘ مملکت کے مالی معاملات اور بجٹ وغیرہ کے بارے میں پارلیمنٹ کے اختیارات کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ’’۱۱۰۔ یقر المجلس النیابی الخطۃ العامۃ للتنمیۃ الاقتصادیۃ والاجتماعیۃ ویحدد القانون طریقۃ إعداد الخطۃ وعرضھا علی المجلس النیابی۔ ۱۱۱۔ یجب عرض مشروع المیزانیۃ العامۃ علی المجلس باباً باباً وتصدر بقانون ولا یجوز للمجلس النیابی أن یعدل مشروع المیزانیۃ إلا بموافقۃ الحکومۃ وإذا لم یتم اعتماد المیزانیۃ الجدیدۃ قبل السنۃ المالیۃ عمل بالمیزانیۃ القدیمۃ إلی حین اعتمادھا۔ ویحدد القانون طریقۃ إعداد المیزانیۃ کما یحدد السنۃ المالیۃ۔ ۱۱۲۔ تجب موافقۃ المجلس النیابی علی نقل أی مبلغ من باب إلی آخر من أبواب المیزانیۃ العامۃ وکذلک علی کل مصروف غیر وارد بھا أو زائد فی تقدیراتھا وتصدر بقانون۔ ۱۱۳۔ یجب عرض الحساب الختامی للمیزانیۃ العامۃ للدولۃ علی المجلس النیابی فی مدۃ لا تزید علی سنۃ واحدۃ من تاریخ انتھاء السنۃ المالیۃ۔ ویتم التصویت علیھا باباً باباً ویصدر بقانون۔ کما یجب عرض التقریر السنوی لدیوان المحاسبات وملاحظاتہ علی المجلس النیابی۔ وللمجلس أن یطلب من دیوان المحاسبات أیۃ بیانات أو تقاریر أخری۔ ‘‘[2] ’’۱۱۰۔ پارلیمنٹ اقتصادی اور معاشرتی ترقی کے لیے ایک لائحہ عمل طے کرے گی اورقانون‘ لائحہ عمل اور اس کے پارلیمنٹ کے سامنے
[1] مصنفۃ النظم الإسلامیۃ الدستوریۃ:ص۷۰۶۔ ۷۰۷ [2] أیضاً:ص۷۰۷