کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 327
’’۷۳۔ یبین القانون أحکام القسامۃ ولا یجوز أن تجاوز المسؤولیۃ المدنیۃ مقادیر الدیات۔ ۷۴۔ یبین القانون شرط قبول التوبۃ وأحکامھا۔ ۷۵۔ لا یحکم بالإعدام فی جنایۃ إلا إذا امتنع الصلح أو عفو ولی الدم۔ ۷۶۔ یجوز التصالح فی القصاص علی أکثر من الدیۃ۔ ۷۷۔ یجوز أن تتساوی المرأۃ والرجل فی الدیۃ۔ ۷۸۔ شروط القصاص فی الجروح التماثل الکامل وکمال الیقین بذلک عند القاضی۔ ۷۹۔ لجلد ھی العقوبۃ الأساسیۃ فی التعزیرات والحبس محظور إلا فی جرائم معدودۃ ولمدد محدودۃ یبینھا القاضی۔ ۸۰۔ لا یجوز إذلال المحبوس أو إرھاقہ أو الإساء۔ ۃ إلی کرامتہ۔ ۸۱۔ تنشأ محکمۃ دستوریۃ علیا تختص بالفصل فی مدی مطابقۃ القوانین واللوائح لأحکام الشریعۃ الإسلامیۃ وأحکام ھذا الدستور ویحدد القانون اختصاصاتھا الأخری۔ ۸۲۔ ینشأ دیوان للمظالم یحدد القانون تشکیلہ واختصاصاتہ ومرتبات أعضائہ۔ ‘‘[1]
’’۷۳۔ قانون قسم کھا کر اپنا حصہ ثابت کرنے کے أحکام کے طریقہ کار کو واضح کرے گااور دیوانی مقدمات کے ہرجانے کا‘ دیت کی مقدار سے زیادہ ہونا جائز نہ ہوگا۔ ۷۴۔ قانون توبہ کی قبولیت کی شرائط اور أحکام کی وضاحت کرے گا۔ ۷۵۔ کسی جرم میں اس وقت تک پھانسی کی سزا جاری نہیں کی جائے گی جب تک کہ صلح یا مقتول کے أولیاء کا درگزر ناممکن نہ ہو جائے۔ ۷۶۔ قصاص میں دیت سے زائد پر بھی مصالحت جائز ہے۔ ۷۷۔ مرد و عورت کی دیت کا یکساں ہونا جائز ہے۔ ۷۸۔ زخموں میں قصاص کی شروط میں اسی جیسا اتنا ہی زخم لگانا اورقاضی کے ہاں اس بات کا کمال یقین ہونا ہے کہ اس سے زائد زخم نہیں لگے گا۔ ۷۹۔ تعزیرات میں کوڑے لگانا بنیادی سزا ہے اور جیل بھیجنا ایک ممنوع سزا ہے سوائے معدود جرائم میں اس معدود مدت کے لیے کہ جس کو قاضی واضح کرے گا۔ ۸۰۔ قیدی کو ذلیل کرنایا اس کا خون بہانا یا اس کی عزت نفس کو مجروح کرنا جائزنہیں ہے۔ اعلی دستوری عدالت‘ أحکام شرعیہ اور اس أحکام دستور کے لیے قوانین و ضوابط کی انتہائی درجے میں تطبیق کے بارے میں فیصلہ کن حیثیت کی مالک ہو گی۔ قانون اس عدالت کے دوسرے اختیارات بھی نقل کرے گا۔ ۸۲۔ مظالم کے خاتمے کے لیے ایک کچہری بنائی جائے گی جس کے ڈھانچے‘ اختیارات اور اس کے اراکین کی تنخواہوں کا تعین قانون کرے گا۔ ‘‘
ساتواں باب : پارلیمنٹ
یہ باب ۴۶ دفعات پر مشتمل ہے۔ شروع میں پارلیمنٹ کے انتخاب‘ رکنیت اور اس سے استعفی دینے کے طریق کار کی وضاحت کی گئی ہے۔ دستور کے الفاظ ہیں :
’’۸۳۔ یتولی مجلس النیابی سن القوانین ویقر السیاسۃ العامۃ للدولۃ والخطۃ العامۃ للتنمیۃ الاقتصادیۃ والاجتماعیۃ والمیزانیۃ العامۃ للدولۃ۔ کما یمارس الرقابۃ علی أعمال السلطۃ التنفیذیۃ وذلک کلہ علی الوجہ المبین فی الدستور وبما یتفق مع أحکام الشریعۃ الإسلامیۃ۔ ۸۴۔ یحدد القانون الدوائر الانتخابیۃ التی تقسم إلیھا الدولۃ وعدد أعضاء المجلس النیابی علی ألا یقل عن۔ ۔ ۔ عضواً ویجوز للإمام أن یعین فی المجلس النیابی عددا من الأعضاء لا یزید علی ۵؍۱ أعضائہ۔ ۸۵۔ یحدد القانون الشروط الواجب توافرھا فی أعضاء المجلس النیابی ویبین أحکام الانتخاب علی أن یتم الاقتراع تحت إشراف القضاء۔ ۸۶۔ لا یجوز للموظفین فی الحکومۃ أن یرشحوا أنفسھم لعضویۃ المجلس النیابی إلا بعد تقدیم استقلاتھم ویجب قبول الاستقالۃ بمجرد تقدیمھا إذا کان الغرض منھا الترشیح لعضویۃ المجلس النیابی۔ ۸۷۔ یقسم عضو المجلس النیابی أمام المجلس قبل أن یباشر عملہ الیمین الآتیۃ: أقسم باللّٰہ العظیم علی طاعۃ اللّٰہ ورسولہ وأن أحافظ مخلصاً علی سلامۃ الوطن
[1] مصنفۃ النظم الإسلامیۃ الدستوریۃ:ص۷۰۱۔ ۷۰۲