کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 326
ہو یا کسی دوسری مملکت کے ساتھ جنگ چھڑ جائے تو امام استثنائی تدابیر اختیار کر سکتا ہے‘ جن کی وضاحت قانون کرے گا۔ امام ان تدابیر کو اختیار کرنے کے ایک ہفتے کے اندر اندر انہیں پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرے گا اور اگر پارلیمنٹ کا انتخاب ابھی تک نہ ہوا ہو تو سابقہ پارلیمنٹ کو بلوائے گا۔ اگر ان تدابیر میں اس طریقہ کار کو ملحوظ نہ رکھا گیا تو یہ باطل قرار پائیں گی۔ قانون ان استثنائی تدابیر‘ ان پر مرتب ہونے والے آثار‘ ان کو اختیار کرنے کی صورت میں متعلقہ مخصوص پہلوؤں اور ان تدابیر کی عدم اقامت کی صورت میں ان پر مرتب ہونے والے آثار کو برابر کرنے کی کیفیت وغیرہ کو منظم کرنے کے لیے قواعد و ضوابط متعین کرے گا۔ ‘‘
چھٹا باب : عدلیہ
اس باب میں عدل و انصاف کی فراہمی‘ عدلیہ کی آزادی‘ عدالتی کاروائی‘ حدود و تعزیرات‘ حلف برداری‘ قصاص اور عدلیہ کے اختیارات وغیرہ کے بارے میں رہنما أصول بیان ہوئے ہیں۔ اس باب میں کل ۱۲ آرٹیکل ہیں۔ دستور کے الفاظ ہیں :
’’۶۱۔ یحکم القضاۃ بالعدل وفقاً لأحکام الشریعۃ الإسلامیۃ۔ ۶۲۔ الناس سواسیۃ أمام القضاء ولایجوز تمییز أحد أو فئۃ بمحاکم خاصۃ۔ ۶۳۔ لایجوز إنشاء محاکم خاصۃ أو حرمان صاحب قضیۃ من قضائہ الطبیعی۔ ۶۴۔ لا یجوز منع القضاۃ من سماع الدعوی ضد الامام أو الحکام۔ ۶۵۔ تصدر الأحکام وتنفذ باسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ولا یخضع القاضی فی قضائہ لغیر الشریعۃ الإسلامیۃ۔ ۶۶۔ تنفیذ الأحکام مسؤولیۃ الدولۃ والامتناع والتراخی فی تنفیذھا جریمۃ معاقب علیھا۔ ۶۷۔ تکفل الدولۃ استقلال القضاء وعدم المساس باستقلالہ وحریتہ۔ ۶۸۔ تختار الدولۃ للقضاء أصلح المؤھلین لہ من الرجال وتیسر آدائہ لعملہ۔ ۶۹۔ یشترط فی جرائم الحدود أن یحضر المہتم المحاکمۃ أو أن یحضر معہ محام یختارہ ھو أو تندبہ الدولۃ أن لم یختر ھو محامیاً۔ ۷۰۔ مجلس القضاء علنی وللعامۃ حضورہ ولا یجوز جعلہ سریاً إلا لضرورۃ شرعیۃ۔ ۷۱۔ وقع عقوبات الحدود الشرعیۃ فی جرائم الزنا والقذف والسرقۃ والحرابۃ وشرب الخمر والردۃ۔ ۷۲۔ یحدد القانون التعزیرات التی یوقعھا القاضی فی غیر جرائم الحدود۔ ‘‘[1]
’’۶۱۔ قاضی اور جج حضرات شریعت اسلامیہ کے موافق عدل و انصاف سے فیصلہ فرمائیں گے۔ ۶۲۔ تمام لوگ عدالت کے سامنے برابر ہیں۔ کسی فرد واحد یا گروہ کے لیے علیحدہ سے کسی خاص عدالتی نظام کا قیام جائز نہیں ہے۔ ۶۳۔ خاص عدالتوں کا قیام یا کسی صاحب مقدمہ کو عدالتی فیصلے کے فطری حق سے محروم کر دینا جائز نہ ہو گا۔ ۶۴۔ ججوں کو امام یا حکام کے خلاف دعوی کی سماعت سے روکنا جائز نہ ہوگا۔ ۶۵۔ عدالتی فیصلے اللہ کے نام سے جاری و نافذ ہوں گے۔ قاضی اپنے فیصلے میں شریعت اسلامیہ کے سواء کسی کے سامنے کسی لچک کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ ۶۶۔ فیصلوں کی تنفیذ مملکت کی ذمہ داری ہے اور اگر ان کی تنفیذ میں کوئی رکاوٹ یا تاخیر ہوتی ہے تو یہ قابل سزا جرم ہے۔ ۶۷۔ مملکت‘ عدلیہ کی آزادی اور اس کی حریت و آزادی پر آنچ نہ آنے کی ذمہ دار ہو گی۔ مملکت ‘عدلیہ کے لیے مردوں میں سے قابل ترین افراد کا انتخاب کرے گیااور ان کے کام کے لیے اپنے وسائل کی فراہمی کو آسان بنائے گی۔ ۶۹۔ حدود کے جرائم میں یہ شرط ہو گی کہ تہمت لگایا گیا شخص بذات خود عدالت میں حاضر ہو گا یا اس کے ساتھ اس کا وکیل حاضر ہو یا اگر وہ وکیل نہ کر سکے تو حکومتی وکیل اس کے ساتھ حاضر ہو۔ ۷۰۔ مقدمات کا فیصلہ علانیہ ہو گا اور عدالتی کاروائی کو سوائے کسی شرعی ضرورت کے پوشیدہ رکھنا جائزنہ ہو گا۔ ۷۱۔ شرعی حدود کی سزائیں زنا‘ قذف‘ چوری ‘ دہشت گردی‘ شراب نوشی اور ارتداد میں جاری ہوں گی۔ ۷۲۔ حدود کے جرائم کے علاوہ جن جرائم میں قاضی تعزیرات جاری کرے گا‘ قانون ان کا تعین کرے گا۔ ‘‘
قسامت‘ پھانسی‘ قصاص اور دیت وغیرہ کے بارے میں ان الفاظ میں رہنمائی موجود ہے:
[1] مصنفۃ النظم الإسلامیۃ الدستوریۃ:ص۷۰۱۔ ۷۰۲