کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 325
أستاذڈاکٹر مصطفی کمال وصفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’۵۳۔ لا تجوز الوصیۃ للامام أو الوقف علیہ أو أقاربہ حتی الدرجۃ الرابعۃ إلا أن تکون وصیۃ ممن یرثہ الامام۔ کما لا یجوز للامام أن یشتری أو یستأجر شیئا من أملاک الدولۃ أو أن یبیع أو یؤجر شیئاً من أملاکہ إلیھا۔ ۵۴۔ الھدایا للامام غلول وما یتم فیھا یضاف إلی بیت المال۔ ۵۵۔ الامام قدوۃ للرعیۃ فی العدل والإحسان والعمل الصالح وھو یشارک غیرہ من أئمۃ المسلمین فی کل ما یھم الجماعۃ الإسلامیۃ کمایبعث بعثاً للحج کل عام یشارک بہ فی مؤتمرات المسلمین الرسمیۃ وغیر الرسمیۃ۔ ۵۶۔ الامام مسؤول عن قیادۃ جیشہ لجھاد وحفظ الثغور وتراب الوطن وإقامۃ الحدود وعقد المعاھدات بعد إقرارھا۔ ۵۷۔ الإمام مسؤول عن تمکین الأفراد والجماعۃ من الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر وأداء الفرائض۔ ‘‘[1] ’’۵۳۔ امام کے لیے وصیت یا وقف کرناجائز نہ ہو گا۔ اسی طرح اس کے رشتہ داروں یہاں تک کہ چوتھے درجے تک کے لیے بھی وصیت یا وقف کرنا جائزنہ ہو گاسوائے اس کے کہ اس شخص کی طرف سے کوئی وصیت ہو جس کا امام وارث بن رہاہو۔ اسی طرح امام کے لیے مملکت کی أملاک میں کوئی شیء خریدنایا بیچنا یااسے کرائے پر حاصل کرنایا کرائے پر دینا جائز نہ ہو گا۔ ۵۴۔ امام کو تحفے تحائف دینا خیانت ہے اور جو بھی تحائف وصول ہوں گے وہ بیت المال میں داخل کر دیے جائیں گے۔ ۵۵۔ امام عدل و احسان اور عمل صالح میں رعایا کے لیے ایک أسوہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ امام(صدر)دوسرے مسلمان ممالک کے أئمہ(صدور)کے ساتھ ہر اس مجلس میں شریک ہو گا جو امت مسلمہ کے لیے اہمیت رکھتی ہو۔ اسی طرح امام حج کے لیے ہر سال ایک وفد بھیجے گا۔ اس وفد کے ذریعے وہ مسلمان ممالک کے سربراہوں کی سرکاری اور غیر سرکاری کانفرنسوں میں شرکت کرے گا۔ ۵۶۔ امام جہاد کے لیے اپنے لشکروں کی قیادت‘ سرحدوں اور وطن کی حفاظت‘ حدود کی اقامت اور طے شدہ معاہدات کی پابندی کروانے کے بارے میں مسؤول ہے۔ ۵۷۔ امام مختلف افراد اور جماعتوں کو أمر بالمعروف ونہی عن المنکراور ادائیگی فرائض پرقادر بنانے کے بارے میں مسؤول ہے۔ ‘‘ امام ‘ مملکت کے ملازمین کی تقرری کرے گا علاوہ ازیں ملک میں ایمرجنسی کے حالات میں امام خصوصی اختیارات کا مالک ہو گا۔ دستور کے الفاظ ہیں : ’’۵۸۔ یعین الإمام موظفی الدولۃ ویجوز أن یخول القانون غیرہ تعیین الموظفین من غیر المستویات العلیا۔ ۵۹۔ العفو عن جرائم فیما عدا الحدود لا یکون إلا بقانون۔ وللإمام العفوعن عقوبات الجرائم فی ظروف خاصۃ فیما عدا عقوبات الحدود والخیانۃ العظمی۔ ۶۰۔ للإمام عند الضرورۃ اتخاذ تدابیر استثنائیۃ یبینھا القانون إذا قامت قلاقل أو قام ما ینذر بحدوث قلاقل أو تہدید کیان الدولۃ أو حرب أھلیۃ أو حرب مع إحدی الدول علی أن یعرضھا علی المجلس النیابی خلال أسبوع من اتخاذھا أو إذا لم یکن قد تم انتخاب المجلس فیدعی المجلس القدیم وتبطل ھذہ التدابیر إن لم یتبع فیھا ھذا الإجراء۔ ویصدر قانون بتنظیم ھذہ التدابیر الاستثنائیۃ والآثار المترتبۃ علیھا والجھات المختصۃ باتخاذھا وکیفیۃ تسویۃ الآثار المترتبۃ علیھا فی حالۃ عدم إقرارھا۔ ‘‘[2] ’’۵۸۔ امام مملکت کے ملازمین کا تعین کرے گا۔ یہ بھی درست ہے کہ قانون اعلی سطح کی ملازمتوں کے علاوہ ملازمین کی تقرری کی ذمہ داری امام کے علاوہ کسی اور کو سونپ دے۔ حدود کے علاوہ جرائم کی معافی قانون کے مطابق ہو گی۔ امام کو اس بات کی اجازت ہو گی کہ وہ سوائے حدود اور کسی بڑی خیانت کے خاص حالات میں جرائم کو معاف کر دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ۶۰۔ ضرورت کے وقت جبکہ بے چینی کے حالات ہوں یا ایسے حالات ہوں کہ جن سے بے چینی و اضطراب پیدا ہونے کا اندیشہ ہو یا مملکت کے وجود کوئی خطرہ لاحق ہو یا خانہ جنگی
[1] مصنفۃ النظم الإسلامیۃ الدستوریۃ:ص۶۹۹۔ ۷۰۰ [2] أیضاً:ص۷۰۰