کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 324
سے اس کی اجازت ہو گی۔ ۴۰۔ کسی بھی شخص کی ملکیت اس سے زبردستی حاصل نہیں کی جائے گی سوائے ان چیزوں کے کہ جن میں مفاد عامہ ہو اور اس میں اس شخص کو اس کی خاطر منظم قانون کے موافق مکمل قیمت ادا کی جائے۔ ۴۱۔ اخبارات کا اجراء ایک جائز کام ہے اور صحافت کو آزادی حاصل ہو گی لیکن یہ آزادی شرعی حدود کے اندر ہو گی۔ ۴۲۔ شہریوں کو قانون میں بیان شدہ طریقہ کار کے مطابق انجمن اور یونین بنانے کا حق حاصل ہو گا۔ ہاں ایسی جماعتوں کے قیام روکا جائے گا جن کی سرگرمیاں اسلامی معاشرے کے نظام کے خلاف ہوں یا خفیہ عسکری نوعیت کی ہوں یا کسی بھی پہلو سے خلاف شریعت افعال کی مرتکب ہوں۔ ۴۳۔ حقوق کی ادائیگی مقاصد شریعت کی روشنی میں ہو گی۔ ‘‘
پانچواں باب : امامت
اس باب میں ۱۷ أصول بیان ہوئے ہیں۔ امام کی اطاعت‘ امامت کے طریقہ انعقاد یعنی بیعت‘امامت کی شروط اورامام کے حقوق پر درج ذیل الفاظ میں رہنمائی کی گئی ہے:
’’۴۴۔ یکون للدولۃ إمام وتجب الطاعۃ لہ وإن خولف فی الرأی۔ ۴۵۔ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق ولا للامام فی أمر مقطوع بمخالفتہ للشریعۃ۔ ۴۶۔ یبین القانون طریقۃ البیعۃ العامۃ فی اختیار الإمام علی أن تتم البیعۃ العامۃ تحت إشراف القضاء۔ وتکون البیعۃ بالأغلبیۃ المطلوبۃ لأصوات المشترکین فی البیعۃ۔ ۴۷۔ یشترط للمرشح لرئاسۃ الدولۃ الإسلام والذکورۃ والبلوغ والعقل والصلاح والعلم بأحکام الشریعۃ الإسلامیۃ۔ ۴۸۔ یتم تعیین الإمام ببیعۃ عامۃ من جمیع طبقات الأمۃ طبقاً للقانون ویجوز للمرأۃ أن تطلب الاشتراک فی الانتخا ب متی استوفت شروطہ وتمکن من الانتخاب۔ ۴۹۔ لا جناح علی أبدی رأیہ ضد البیعۃ للامام قبل تمامھا۔ ۵۰۔ لأصحاب الحق فی البیعۃ عزل الامام متی تحقق سببہ و بالطریقۃ التی بینھا القانون۔ ۵۱۔ یخضع الامام للقضاء ولہ الحضور بوکیل عنہ۔ ۵۲۔ یتمتع رئیس الدولۃ بکافۃ الحقوق التی یتمتع بھا المواطنون ویلتزم بما یلتزمون بہ وتسری فی حقہ الأحکام المالیۃ التی یحددھا القانون۔ ‘‘[1]
’’۴۴۔ مملکت کا ایک امام(صدر)ہو گا جس کی اطاعت واجب ہو گی‘ چاہے رائے اس کے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔ ۴۵۔ اللہ کی معصیت میں کسی بھی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ اسی طرح ان مسائل میں امام کی اطاعت کرنا جائز نہیں ہے جو قطعی طور پر شریعت اسلامیہ کے خلاف ہوں۔ ۴۶۔ امام کے انتخاب کے لیے مملکت کا قانون بیعت عامہ کا طریقہ کار وضع کرے گااور بیعت عامہ عدالت کی زیر سرپرستی منعقد ہو گی۔ بیعت میں حصہ لینے والے افراد کی مطلوبہ اکثریت کے بیعت کرنے سے بیعت منعقد ہو جائے گی۔ ۴۷۔ مملکت کی سربراہی کے امیدوار کے لیے اسلام‘ مرد ہونا‘ بلوغت‘ عقل‘ خیر خواہی اور أحکام شرعیہ کا علم ہونا بنیادی شرائط ہیں۔ ۴۸۔ امت کے جمیع طبقات کی عمومی بیعت سے امام کا انتخاب ہو گاجو قانون کے مطابق ہو گی۔ عورت کے لیے بھی یہ جائز ہے کہ وہ انتخاب میں شریک ہونے کا مطالبہ کرے جبکہ اس میں شروط پوری ہو جائیں اور وہ انتخاب پر قدرت بھی رکھتی ہو۔ ۴۹۔ امام کی بیعت کی تکمیل سے پہلے اس کی بیعت کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ ۵۰۔ بیعت کا حق رکھنے والوں کے پاس امام کو معزول کرنے کا اختیار بھی ہو گا جبکہ امام کے معزول ہونے کے اسباب پائیں جائیں اور اس حق کا استعمال قانون میں بیان شدہ طریقے کے مطابق ہو گا۔ ۵۱۔ امام وقت عدلیہ کے سامنے جوابدہ ہو گا اور اس کی طرف سے کوئی وکیل عدالت میں حاضر ہو گا۔ ۵۲۔ صدر مملکت(امام)ان تمام حقوق سے فائدہ اٹھائے گا جو شہریوں کو میسر ہوں گے اور ہر اس چیز کا التزام کرے گا جس کے التزام کے شہری پابند ہوں گے۔ امام کے حق میں جو مالی أحکام جاری ہوں گے‘ قانون ان کو مقرر کرے گا۔ ‘‘
امام اور مملکت کے مابین مالی معاملات اور امام کی عمومی و خصوصی ذمہ داریوں کے بارے میں بھی دستور میں رہنمائی موجود ہے۔
[1] مصنفۃ النظم الإسلامیۃ الدستوریۃ:ص۶۹۸۔ ۶۹۹