کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 323
مجرموں کی سپردگی و حوالگی متعین ممالک کے باہمی اتفاقی معاہدات کے نتیجے میں ہوگی۔ ‘‘ کسی سرکاری ملازم کے جرم میں ملوث ہونے یا تعاون کرنے یا سکوت اختیار کرنے اور دیت کی ادائیگی کے بارے میں درج ذیل أصول بیان کیے گئے ہیں : ’’۳۳۔ تعذیب الأشخاص جریمۃ۔ ولا تسقط الجریمۃ أو العقوبۃ طول الحیاۃ من یرتکبھا ویلتزم فاعلھا أو الشریک فیھا بالمسؤولیۃ عنھا فی مالہ فإن کان بمساعدۃ موظف أو بموافقتہ أو بالسکوت عنھا فھوشریک فی الجریمۃ جنائیاً ومسؤول مدنیاً وتسأل عنہ الحکومۃ بالتضامن۔ ۳۴۔ یعاقب بعقوبۃ التعذیب الموظف الذی تقع فی اختصاصہ جریمۃ تعذیب علم بھا ولم یبلغ السلطات المختصۃ عنھا۔ ۳۵۔ لا یبطل دم فی الإسلام وعلی الدولۃ تعویض المستحقین من قتلی لا یعرف قاتلھم أو عجزۃ لا یعرف من أعجزھم أو عرف ولم یوجد لدیہ مال یکفل التعویض۔ ‘‘[1] ’’۳۳۔ لوگوں کو اذیت پہنچانا ایک جرم ہے اور کوئی بھی جرم یا اس کی سزا اس کے مرتکبین سے ساری زندگی ساقط نہیں ہوتی۔ مجرم یا اس کا شریک کار جرم کی مسؤولیت کے ضمن میں ( اخراجات کا)التزام اپنے مال میں سے کرے گا۔ اگر کوئی جرم کسی سرکاری ملازم کی مدد یا موافقت یا سکوت کی بنا پر ہوگا تو وہ بھی اس جرم میں سزا کے اعتبار سے شریک سمجھا جائے گااور دیوانی اعتبار سے مسؤول ہو گااور حکومت سے اس کے بارے میں ضمانت طلب کی جائے گی۔ ۳۴۔ وہ سرکاری ملازم قابل سزا ہو گا جس کے دائرہ عمل میں کسی کو اذیت پہنچائی جائے اور ا س کے علم میں بھی ہو اور وہ اپنے نظم بالا کو اس بارے میں مطلع نہ کرے۔ ۳۵۔ اسلام میں کوئی بھی خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ مملکت ان مقتولین اور معذورین کے مستحق رشتہ داروں کو دیت ادا کرے گی جن کو قتل یا معذور کرنے والوں کا علم نہ ہو یا اس کے بارے میں علم تو ہو لیکن اس کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ وہ دیت ادا کرسکے۔ ‘‘ دعوی دائر کرنے کے حق‘حقوق ملکیت اور آزادی صحافت جیسے حقوق کو بھی بنیادی حقوق کا درجہ دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر مصطفی کمال وصفی رحمہ اللہ ان حقوق کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’۳۶۔ کل انسان حق تقدیم الشکوی عن جریمۃ تقع علیہ أو علی غیرہ أو علی اختلاس المال العام أو تھدیدہ۔ ۳۷۔ حق العمل والکسب والتملک مکفول ولا یجوز المساس بہ إلا بمقتضی أحکام الشریعۃ الإسلامیۃ۔ ۳۸۔ للمرأۃ أن تعمل فی حدود أحکام الشریعۃ۔ ۳۹۔ تکفل الدولۃ حریۃ الملک وحقوق الملکیۃ وحرمتھا ولا تجوز المصادرۃ العامۃ بأیۃ أداۃ کانت أما المصادرۃ الخاصۃ فلا تکون إلا بحکم قضائی۔ ۴۰۔ لا تنزع ملکیۃ أحد إلا للمصلحۃ العامۃ ومقابل تعویض کامل وفقاً لأحکام القانون المنظم لذلک۔ ۴۱۔ إنشاء الصحف مباح والصحافۃ حرۃ وذلک کلہ فی حدود أحکام الشریعۃ الإسلامیۃ۔ ۴۲۔ للمواطنین حق تکوین الجمعیات والنقابات علی الوجہ المبین فی القانون ویحظر منھا ما یکون نشاطہ معادیاً لنظام المجتمع أو سریاً ذات طابع عسکری أو مخالفاً بأی وجہ من الوجوہ لأحکام الشریعۃ الإسلامیۃ۔ ۴۳۔ تمارس الحقوق وفقاً لمقاصد الشریعۃ۔ ‘‘[2] ’’۳۶۔ ہر انسان کے پاس اپنے یاکسی اور کے خلاف ہونے والے جرم یا قومی اثاثہ جات میں غبن یا دھمکی دینے کے خلاف رپورٹ درج کروانے کا حق ہے۔ ۳۷۔ کام‘ کمائی اور ملکیت کے حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان کو أحکام شریعت کے علاوہ نہیں چھیڑا جائے گا۔ ۳۸۔ عورت شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کر سکتی ہے۔ ۳۹۔ مملکت ‘ حقوق ملکیت ‘ ان کی حرمت اور آزادی مِلک کی ذمہ دار ہو گی۔ کسی بھی قسم کی اشیاء میں عمومی ضبطی مال و جائداد کی اجازت نہ ہو گی‘ جہاں تک خاص قسم کے ضبط مال و جائداد کا تعلق ہیں تو عدالت کے حکم
[1] مصنفۃ النظم الإسلامیۃ الدستوریۃ:ص۶۹۵ [2] أیضاً:ص۶۹۵۔ ۶۹۶