کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 322
’’۱۸۔ معیشت کی بنیاد شریعت اسلامیہ کے ان مبادی پر قائم ہو گی جو انسانی اکرام اور عدل اجتماعی کے ضامن ہیں ‘ فکری و عملی بھاگ دوڑ کو زندگی کا حصہ قرار دیتے ہیں اور کسب حلال کی نگہداشت کرتے ہیں۔ ۱۹۔ تجارت‘ صنعت اور زراعت کی آزادی شریعت اسلامیہ کی حدود میں ہو گی۔ ۲۰۔ مملکت اسلامیہ اقتصادی ترقی کے لیے شریعت اسلامیہ کے موافق لائحہ عمل وضع کرے گی۔ ۲۱۔ مملکت ذخیرہ اندوزی میں رکاوٹ بنے گی اور قیمتوں کے اتار چڑھاؤ میں بغیر ضرورت کے مداخلت نہیں کرے گی۔ ۲۲۔ مملکت صحراء کی آباد کاری اور زرعی زمین کے رقبے میں توسیع کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ ۲۳۔ لین دین میں سود بالکل بھی جائز نہیں ہیں اور اسی طرح کسی بھی قسم کے سودی معاملات کو جاری رکھنا ناجائز ہو گا۔ ۲۴۔ زمین کی تہہ میں قدرتی نعمتوں میں سے جو بھی معدنیات اور خام مال وغیرہ ہو گا‘ وہ مملکت کی ملکیت ہو گا۔ ۲۵۔ جس مال کا کوئی مالک نہ ہو گا وہ مملکت کے بیت المال کی ملکیت متصور ہو گا۔ قانون افراد کے لیے ملکیت أموال کا طریقہ کار بھی منظم کرے گا۔ ۲۶۔ مملکت کو جو زکوۃ ملے گی‘ وہ اسے اس کے مصارف شرعیہ میں کھپائے گی۔ ۲۷۔ منافع کا وقف جائز ہو گا اور جمیع گوشوں میں اس کو منظم کرنے کے لیے قانون جاری کیا جائے گا۔ ‘‘
چوتھا باب : انفرادی حقوق و آزادی
اس باب میں کل ۱۶ آرٹیکل ہیں۔ شریعت کے دائرے میں آزادی فکر و عمل ‘ جماعت سازی کے حقوق اور نقل و حرکت جیسے اختیارات کے بارے میں دستور میں درج ذیل الفاظ میں رہنمائی موجود ہے:
’’۲۸۔ العدل والمساواۃ أساس الحکم وحقوق الدفاع المدنی والتقاضی مکفولۃ‘ ولا یجوز المساس بھا ویتعین إقامۃ مدافع عن کل متھم فی جرائم الحدود وفی القتل۔ ۲۹۔ الاعتقاد الدینی والفکری وحریۃ العمل وإبداء الرأی بالقول والکتابۃ أو غیرھما وإنشاء الجمعیات والنقابات والانضمام إلیھا والحریۃ الشخصیۃ وحریۃ الانتقال والاجتماع کلھا حقوق وحریات طبیعیۃ أساسیۃ تکفلھا الدولۃ فی حدود الشریعۃ الإسلامیۃ۔ ۳۰۔ للمساکن والمراسلات والخصوصیات حرمۃ والتجسس محظور ویحدد القانون ما یرد علی ھذہ الحرمۃ من قیود تمارسھا الدولۃ فی جرائم الخیانۃ أو الخطر الداھم ولا تکون تلک الممارسۃ إلا بإذن قضائی۔ ۳۱۔ حق التنقل داخل البلاد وخارجھا مباح ولا یمنع من السفر إلی الخارج إلا بحکم قضائی یبین القاضی أسبابہ ولایجوز نفی المواطنین ولا إلزامھم البقاء فی مکان دون آخر۔ ۳۲۔ تسلیم اللاجئین السیاسیین محظور وینظم تسلیم المجرمین العادیین باتفاقات مع الدول المعنیۃ۔ ‘‘[1]
’’۲۸۔ عدل و مساوات‘ فیصلوں کی بنیاد ہوں گے۔ شہری دفاع اور قرضے کے مطالبے جیسے حقوق کی ضمانت دی جائے گی۔ ان حقوق کو چھیڑنا جائز نہ ہو گا۔ قتل میں حدود کے جرائم میں ہر ایک متہَم کی طرف سے وکیل کھڑا کیا جائے گا۔ ۲۹۔ دینی و فکری نظریات‘ آزادی عمل ‘ لساناً یا تحریراً کسی نئی رائے کا اظہار‘ انجمنوں اور یونینوں کا قیام‘ ان میں شمولیت‘ شخصی آزادی‘ آزادی نقل و حرکت‘ آزادی اجتماع وغیرہ بنیادی انسانی حقوق اور فطری آزادیاں ہیں جن کی اسلامی حدود کے اندر مملکت اسلامیہ ذمہ دار ہو گی۔ ۳۰۔ گھروں ‘ خط و کتابت‘ شخصی معاملات کو تقدس حاصل ہو گا اور کسی کو بھی ان کی جاسوسی کی اجازت نہ ہوگی۔ (ہنگامی حالات میں )اس حرمت پراثر انداز ہونے والے(حکومتی افعال کے لیے)قانون حدود مقرر کرے گاجن کی روشنی میں مملکت خیانت اور ہنگامی نوعیت کے خطرات جیسے جرائم میں (اس دائرے میں بھی)اقدام کر سکتی ہیں لیکن یہ اقدام عدالت کی اجازت سے ہو گا۔ ۳۱۔ ملک کے اندر اور باہرنقل و حرکت کا حق ہر کسی کو حاصل ہے اور کسی کو بھی عدالتی حکم کے بغیر ملک سے باہر سفر کرنے سے نہ روکا جائے گااور قاضی اس حکم کے أسباب بھی واضح کرے گا۔ کسی بھی شہری کو ملک بدر کرنا یا کسی ایک جگہ رہائش اختیار کرنے پر پابند کرناجائز نہ ہو گا۔ ۳۲۔ سیاسی پناہ گزینوں کو کسی کے حوالے کرنا ممنوع ہے اور اسی طرح عادی
[1] مصنفۃ النظم الإسلامیۃ الدستوریۃ:ص۶۹۳۔ ۶۹۵